کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 119
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کلام مبارک ان اہل بدعت کے بارے میں ہے جو بڑے عبادت گزار تھے۔اور صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ :
’’ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں شراب پیا کرتا تھا۔جب بھی اسے لایا جاتا تو اسے شراب پینے کے سبب کوڑے لگوائے جاتے تھے۔ ایک دن پھر نشہ کی حالت میں لایا گیا ؛تو قوم میں سے ایک شخص نے کہا کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو، کسی قدر یہ [نشہ کی حالت میں ] لایا جاتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ اس پر لعنت نہ کرو، اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔‘‘[1]
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس متعین مئے نوش پر لعنت کرنے سے منع فرمایا۔ اور اس بات کی گواہی دی کہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔ حالانکہ عمومی طور پر شراب نوش پر لعنت وارد ہوئی ہے۔ یہاں سے عام مطلق اور خاص معین میں فرق واضح ہوتا ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ گنہگار جو اپنے گناہوں کے معترف ہیں ان کا ضرر مسلمانوں پران اہل بدعت کی نسبت بہت کم ہوتا ہے جو اپنی طرف سے بدعت ایجاد کرتے ہیں ؛ اور پھر اس کی وجہ سے اپنے مخالفین کو سزا کا مستحق سمجھتے ہیں ۔
روافض کی بدعت خوارج کی نسبت زیادہ سخت ہوتی ہے۔وہ ایسے لوگوں کو بھی کافر کہتے ہیں ؛ جنہیں خوارج بھی کافر نہیں کہتے۔ جیسے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما۔ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ پرایسا جھوٹ بولتے ہیں کہ ایسا جھوٹ کسی دوسرے نے کبھی نہ بولا ہوگا۔خوارج جھوٹ نہیں بولتے۔ خوارج روافض کی نسبت زیادہ بہادر؛ سچے اور وعدہ وفا کرنے والے؛ مرد میدان اور بڑے جنگجو تھے۔جب کہ ان کے مقابلہ میں رافضی نہایت جھوٹے، حد درجہ بزدل، بد عہد اور نہایت ذلیل ہوا کرتے تھے۔ شیعہ مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار تک سے مددلینے سے گریز نہیں کرتے۔ہم نے بھی دیکھا ہے اورمسلمانوں نے بھی مشاہدہ کیا ہے کہ جب کبھی مسلمانوں پر کڑا وقت آیا تو ان لوگوں نے مسلمانوں کے خلاف ان کے
[1] جائیں تو ان میں کوئی چیز معلوم نہ ہوگی۔ اس کے پر اور پکڑنے کی جگہ کے درمیانی مقام کو دیکھا جائے تو اس میں کوئی چیز دکھائی نہ دے گی حالانکہ وہ گندگی اور خون سے ہو کر گزرا ہے ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک سیاہ آدمی ہوگا اس کا ایک مونڈھا عورت کے پستان یا پھڑکتے ہوئے گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہوگا جب لوگوں میں اختلاف پیدا ہوگا تو یہ ظاہر ہوں گے۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اس امر کی شہادت دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے اور یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے ان لوگوں سے جنگ کی ہے۔ میں ان کے ساتھ تھا انہوں نے حکم دیا وہ شخص تلاش کر کے لایا گیا میں نے اس میں وہی خصوصیات پائیں جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بابت بیان فرمایا تھا۔مزید دیکھیں :
فِی البخارِیِ:۴؍۲۰۰؛ کتاب المناقب، باب علاماتِ النبوۃِ، مسلِم:۲؍۷۴۴؛ کتاب الزکاۃ، باب ذِکرِ الخوارِجِ وصِفاتِہِم المسند ط۔الحلبِیِ :۳؍۶۵، وانظر جامِع الأصولِ لِابنِ الأثِیرِ: ۱۰؍۴۳۶؛ سنن ابنِ ماجہ:۱؍۶۰؛ المقدِمۃ باب فِی ذِکرِ الخوارِجِ۔
صحیح بخاری۔ کتاب الأذان، باب(۱۲۶)، (ح:۷۹۷،۸۰۴،۴۵۶۰)، صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب استحباب القنوت فی جمیع الصلوات (ح: ۶۷۵، ۶۷۶)۔