کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 112
دریافت کیا گیا اگر اس میں وہ عیب موجود ہو تب بھی اس کا ذکر کرنا مناسب نہیں ؟ فرمایا: ’’ اگر اس میں وہ عیب موجود ہو پھر تو غیبت ہے اور اگر موجود نہ ہو تو یہ بہتان ہے۔‘‘[1] اس حدیث سے مستفاد ہوتا ہے کہ کسی میں ایسا عیب ثابت کرنا جو فی الواقع اس میں نہ ہو بہتان کہلاتا ہے۔ ظاہرہے کہ صحابہ پر ایسا بہتان لگانا کس قدر مذموم ہوگا؟ جو شخص کسی مجتہد کے بارے میں کہے کہ اس نے دانستہ ظلم کیا یا دانستہ کتاب و سنت کی خلاف ورزی کی حالانکہ ایسا نہ ہو تو یہ بہتان ہے ورنہ غیبت۔البتہ غیبت کی وہ قسم مباح ہے جسے اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے روا رکھا ہو۔ غیبت مباح وہ ہے جو قصاص و عدل کے طور پر ہو یا اس میں کوئی دینی یا دنیوی مصلحت مضمر ہو۔ مثلاً مظلوم کہے کہ فلاں شخص نے مجھے مارا یا میرا مال لے لیا یا میرا حق غصب کر لیا ہے۔اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الْجَہْرَ بِالسُّوْئِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ﴾ (النساء:۱۴۸) ’’اﷲتعالیٰ اونچی آواز سے بری بات کہنے کو پسند نہیں کرتے البتہ مظلوم ایسا کر سکتا ہے۔‘‘ مذکورہ صدر آیت کریمہ اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی جو کسی قوم کے پاس مہمان ٹھہرا اور انھوں نے حق مہمانی ادا نہ کیا۔[2] اس لیے کہ مہمانی حدیث نبوی کی رو سے واجب ہے[3]؛جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہوتا ہے؛ جب انھوں نے اداء واجب میں تساہل کا ارتکاب کیا تو مہمان ان کی کوتاہی کا تذکرہ کر سکتا ہے؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے: ’’ اپنے بھائی کی مدد کرو ؛ بھلے وہ ظالم ہو یا مظلوم ۔‘‘ [صحابی کہتے ہیں :]میں نے کہا: ’’میں مظلوم کی مدد کروں ؛ یہ توسمجھ گیا؛ پر ظالم کی مدد کیسے کروں ؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اسے ظلم کرنے سے روکو؛ یہ اس کی مدد ہے ۔‘‘ جہاں تک ضرورت کا تعلق ہے؛ مثال کے طور پر فتوی پوچھنا؛۔ تواحادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے بارگاہ نبوی میں حاضر ہو کر شکایت کی کہ میرا خاوند ابو سفیان رضی اللہ عنہ کنجوس آدمی ہے اور مجھے اتنا نان و نفقہ نہیں دیتا جس سے میری اور میرے بچوں کی بسر اوقات ہو سکے تو کیا مجھے اس کے مال سے کچھ لینے کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا:
[1] صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الغیبۃ(ح:۲۵۸۹)۔ [2] تفسیر ابن کثیر (ص:۳۷۲) [3] صحیح بخاری، کتاب الادب، باب اکرام الضیف(حدیث:۶۱۳۷)، صحیح مسلم، کتاب اللقطۃ، باب الضیافۃ و نحوھا(حدیث:۱۷۲۷)۔ ایک اور آیت میں ہے:﴿ وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَئِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِنْ سَبِيلٍ ﴾ [الشوری :41 ]’’جو مظلوم اپنے ظالم سے اس کے ظلم کا انتقام لے، اس پر کوئی ماخذہ نہیں ۔‘‘مسند احمد کی روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’ جو مسلمان کسی اہل قبلہ کے ہاں مہمان بن کر جائے اور ساری رات گذر جائے لیکن وہ لوگ اس کی مہمانداری نہ کریں تو ہر مسلمان پر اس مہمان کی نصرت ضروری ہے تاکہ میزبان کے مال سے اس کی کھیتی سے بقدر مہمانی دلائیں ۔‘‘ اسے البانی نے صحیح کہا ہے۔