کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 99
کرنے سے اسے پہنچتا ہو، جیسے ناصح میشر۔ اور فرض کیا کہ جب وہ مامور کی اعانت کرے گا تو اس میں اس کی کوئی مصلحت نہیں ۔ کیونکہ مامور کی مصلحت کے حصول میں آمر کی مضرت ہوتی ہو۔ جیسے کوئی مظلوم کو ظالم سے بھاگ جانے کو کہے کہ اگر وہ اس میں مظلوم کی اعانت کرتا ہے تو اس میں دونوں کی یا کسی ایک مضرت ہے۔ جیسے وہ شخص جو بستی کے پرلے کنارے سے دوڑتا ہوا موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تھا اور یہ کہا تھا کہ: ﴿اِنَّ الْمَلَاَ یَاْتَمِرُوْنَ بِکَ لِیَقْتُلُوْکَ فَاخْرُجْ اِنِّیْ لَکَ مِنَ النّٰصِحِیْنَo﴾ (القصص: ۲۰) ’’بے شک سردار تیرے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں کہ تجھے قتل کر دیں ، پس نکل جا، یقیناً میں تیرے لیے خیرخواہوں سے ہوں ۔‘‘ یہاں اس کی مصلحت صرف اسی میں تھی کہ وہ جنابِ موسیٰ علیہ السلام کو بھاگ جانے کا ہی مشورہ اور امر دے نا کہ بھاگنے میں ان کی اعانت بھی کرے۔ کیونکہ اعانت میں اس کی قوم اسے نقصان پہنچاتی۔ اس کی مثالیں بے شمار ہیں ۔ جیسے آدمی کسی کو اس عورت سے نکاح کرنے کا کہے جس سے وہ خود نکاح کرنا چاہتا ہے۔ یا اسے وہ سامان خریدنے کو کہے جو وہ خود خریدنا چاہتا ہے، یا اسے وہ مکان کرایہ پر لینے کو کہے جسے وہ خود کرائے پر لینا چاہتا ہے۔ یا اسے ایسی قوم سے صلح کرنے کو کہے جس سے مامور کو نفع پہنچے حالانکہ وہ قوم آمر کی دشمن ہو اور صلح کرنے کے بعد وہ اور زیادہ قوی ہو جاتی ہو۔ وغیرہ وغیرہ۔ کہ یہ وہ مثالیں ہیں جن میں آمر مامور کی معاونت نہیں کرتا، گو اس بات کے امر میں وہ مامور کے حق میں ناصح ہو اور اس امر کا ارادہ کرنے والا بھی ہو۔ غرض مامور کو ایک ایسے فعل کا امر کرنا جس کی مصلحت اسی کی طرف راجع ہو، یہ آمر کے اس کی اس مامور کو بجا لانے پر معاونت کرنے کے علاوہ ایک بات ہے۔ چاہے وہ مامور کی اعانت کر بھی سکتا ہو۔ پس جب یہ کہا جائے گا کہ رب تعالیٰ نے بندوں کو ان افعال کا امر دیا ہے جن میں ان کی مصلحت ہے اور ان کی مصلحت کا اس نے ارادہ بھی کیا، تو اس سے یہ لازم نہیں آتا وہ مامور بہ میں ان کی معاونت بھی کرے گا۔ بالخصوص قدریہ کے نزدیک، وہ اس بات کی قدرت نہیں رکھتا کہ وہ کسی کی ایسی اعانت کرے جس سے وہ فاعل بن جائے۔ کیونکہ اگرچہ اس کے افعال معلل بالحکمت نہیں لیکن وہ ایک مراد کی دوسری مراد سے تمیز کے بغیر جو چاہے کرتا ہے۔ اس توجیہ کی بنا پر کسی فعل کی لمیت ہونا متمنع ہے چہ جائیکہ وہ فرق کو طلب کرے۔ اگر اس کے افعال کو معلل بالحکمت کہا جائے اور یہ کہا جائے کہ لمیت نفس الامر میں ثابت ہے۔ چاہے ہم نہیں بھی جانتے۔ تو بھی یہ لازم نہیں آتا کہ جب نفس الامر میں امر میں حکمت ہو تو مامور بہ کی اعانت میں بھی حکمت ہو گی۔ بلکہ بسا اوقات حکمت اس بات کو مقتضی ہوتی ہے کہ مامور بہ میں اعانت نہ کی جائے۔ کیونکہ جب مخلوق میں یہ بات ممکن ہے کہ حکمت و مصلحت کا مقتضی یہ ہو کہ آدمی غیر کو ایک ایسی بات کا امر دے جس میں اس کی مصلحت ہو جبکہ آمر کی حکمت و مصلحت اسی میں ہو کہ وہ اس کی اس امر میں اعانت نہ کرے، تو رب تعالیٰ کے حق میں اس بات کا امکان بدرجہ اولیٰ ہوگا۔