کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 98
ضروری نہیں کہ اس پر اس کی معاونت میں بھی مصلحت ہو۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ مصلحت اس امر و نصیحت کی ضد میں ہو۔ جیسے اگر ایک آدمی دوسرے سے ایک عورت کو پیغام نکاح بھیجنے کا مشورہ لے اور وہ دوسرا اسے اس عورت سے نکاح کر لینے کو کہے کیونکہ اس مشورہ لینے والے کی مصلحت اسی میں تھی۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ خود مشورہ دینے والے کی مصلحت اس میں ہو کہ اس عورت سے شادی وہ خود کر لے نا کہ کوئی دوسرا۔ لہٰذا دوسرے کی خیر خواہی کے اعتبار اسے مشورہ دینا اور بات ہے اور خود اپنے لیے کوئی فعل کرنا دوسری بات ہے۔ تو جب مخلوق کے حق میں یہ فرق ممکن ہے تو خالق کے حق میں تو بدرجہ اولیٰ ممکن ہے۔ وہ خالق و مالک مخلوق کو رسولوں کی زبانی ان کی نافع باتیں بیان کرنا ہے اور انہیں ضرر رساں باتوں سے روکنا ہے۔ پھر ان میں سے کسی کے فعل کے خلق کا تو وہ ارادہ کرتا ہے اور اسے اس فعل کا فاعل بناتا ہے اور کسی کے فعل کے خلق کا ارادہ نہیں کرتا۔ سو رب تعالیٰ کا مخلوق کے افعال کے خلق کا اور دوسری مخلوقات کے خلق کا ارادہ کرنا اور بات ہے، اور اس کا بندوں کو اس اعتبار سے امر کرنا اور بات ہے کہ وہ ان کی مصلحت یا مفسدہ کو بیان کرے۔ رب تعالیٰ نے جب فرعون اور ابو لہب کو ایمان لے آنے کا حکم دیا تھا تو انہیں ان کی اس مصلحت اور منفعت کو بیان کر دیا جو امتثالِ امر میں موجود تھی اور انہیں امر دیتے ہوئے یہ ضروری نہ تھا کہ وہ ان کی اعانت بھی فرماتا۔ بلکہ بسا اوقات ان کے لیے اس فعل کے پیدا کرنے میں اور اس پر ان کی اعانت میں اس اعتبار سے مفسدہ ہوتا ہے کہ یہ اس کا فعل ہو۔ کیونکہ وہ جو بھی پیدا کرتا ہے کسی حکمت سے پیدا کرتا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ جب فعل مامور بہ کے بجا لانے میں مامور کی مصلحت ہو تو اس مامور کے فعل بجا لانے میں آمد کی بھی مصلحت ہو یا وہ مامور کو اس کا فاعل بنائے۔ لہٰذا کہاں خلق کا پہلو اور کہاں امر کا پہلو۔ یہ قدریہ دوسرے کو کسی بات کا امر دینے والے کے لیے ایک مثال بیان کرتے ہیں کہ مامور جس فعل کے زیادہ قریب ہو اس کا کرنا لازم ہے۔ جیسے چہرے کی تروتازگی، اور بیٹھنے کی جگہیں تیار کرنا وغیرہ۔ ان لوگوں کو اس کا جواب دو طرح سے دیا جائے گا: ۱۔ ایک یہ کہ آمر[حکم چلانے والے] نے دوسرے کو ایسی مصلحت کا حکم دیا ہو جو اس کی طرف لوٹتی ہو، جیسے بادشاہ کا فوج کو ایسی بات کا حکم دینا جس سے اس کا ملک مضبوط ہوتا ہے اور آقا کا غلام کو ایسی بات کا حکم دینا جس سے اس کے مال کی درستی ہوتی ہو اور آدمی کا اپنے شریک کو ایسی بات کا حکم دینا جس سے ان کے مشترکہ مفاد کی درستی ہوتی ہو۔ وغیرہ وغیرہ۔ ۲۔ دوسرا یہ کہ آمر مامور کی اعانت میں اس کی مصلحت دیکھے۔ جیسے امر بالمعروف کہ جب آمر برّ و تقویٰ میں مامور کی اعانت کر لے۔ کیونکہ یہ بات معلوم ہے کہ اللہ اسے طاعت پر معاونت میں اجر دے گا اور یہ کہ بندہ جب تک اپنے بھائی کی اعانت میں رہتا ہے اللہ اس کی اعانت میں رہتا ہے۔ غرض جب فرض کیا گیا کہ آمر مامور کو اس کی مصلحت کے لیے امر دیتا ہے۔ نا کہ اپنے کسی نفع کے لیے جو مامور کے