کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 97
ہے۔ سو ان لوگوں کا یہ گمان ہے کہ اس نے جو بھی پیدا کیا ہے، وہ اسے محبوب ہے۔ یہ لوگ بسا اوقات ابادیت کی طرف نکل جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسے کفر، فسوق اور عصیان محبوب ہے اور وہ اس پر راضی ہے اور عارف جب اس مقام کا مشاہدہ کر لیتا ہے تو اس کی قیومیت عامہ کے اور اس بات کے مشاہدہ کی وجہ سے کہ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے، اس کے نزدیک کوئی شی اچھی یا بری نہیں رہتی۔ صوفیہ اور اہل فکر و نظر کے بے شمار شیوخ اس مغالطہ کا شکار ہوئے ہیں ۔ بلاشبہ یہ ایک عظیم غلطی ہے۔
کتاب و سنت اور اسلافِ امت کا اتفاق بتلاتا ہے کہ رب تعالیٰ کو اس کے انبیاء و اولیاء بے حد محبوب ہیں ۔ اسے اپنا امر بھی محبوب ہے اور وہ شیاطین کو اور منہی عنہ کو ناپسند کرتا ہے۔ اگرچہ یہ سب کچھ اس کی مشیئت سے ہے۔ جنید بن محمد اور اس کے اصحاب کی جماعت کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف ہوا تھا۔ تو جنید نے انہیں دوسرے فرق کی طرف دعوت دی۔ وہ یہ اس کی مخلوقات میں اور اس کی محبوب اور غیر محبوب چیزوں میں فرق کریں ۔ لیکن انہیں اس میں اشکال ہو، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ہر مخلوق اس کی مشیئت سے ہے۔ لیکن انہیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس کی مشیئت سے پیدا ہونے والی مخلوق میں اس کی محبوب مخلوق بھی ہے اور غیر محبوب بھی۔ سو جنید کی بات درست تھی۔
پانچویں وجہ :....یہ کہا جائے گا کہ ارادہ کی دو قسمیں ہیں : (۱) ایک بمعنی مشیئت ہے اور یہ فاعل کا فعل کا ارادہ کرنا ہے یہ ارادہ فعل سے متعلق ہے۔ (۲) اور دوسرا یہ کہ وہ غیر سے اس بات کا ارادہ کر لے کہ وہ ایک فعل کرے یہ غیر کے فعل کا ارادہ کرنا ہے۔
لوگوں میں یہ دونوں معانی ہی معقول ہیں ۔ لیکن جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ امر یہ ارادہ کو متضمن نہیں ۔ وہ ارادہ کی صرف پہلی نوع کو ہی ثابت کرتے ہیں اور جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ افعالِ عباد کا خالق نہیں ، وہ صرف دوسرے ارادہ کو ثابت کرتے ہیں ۔
ان فدایہ کے نزدیک پہلے معنی میں رب تعالیٰ کا افعالِ عباد کا خالق ہونا متمنع ہے۔ کیونکہ اس نے ان کو ان کے نزدیک پیدا ہی نہیں کیا اور ان کے بالمقابل دوسرے، ان کے نزدیک رب تعالیٰ کا ارادہ بایں معنی متمنع ہے کہ وہ ارادہ خالق ہے اور جس کے پیدا کرنے کا اس نے ارادہ نہیں کیا اس کی بابت یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس کا ارادہ کرنے والا ہے۔ ان کے نزدیک وہ ہر مخلوق کا ارادہ کرنے والا ہے۔ چاہے وہ کفر ہی ہو اور اس نے جس کو پید انہیں کیا، اس کا اس نے ارادہ بھی نہیں کیا چاہے وہ ایمان ہی ہو۔
اگرچہ یہ لوگ حق کے زیادہ قریب ہیں ۔ لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ دونوں قسم کا ارادہ ثابت ہے۔ جیسا کہ آئمہ اسلاف نے اس کو ثابت بھی کیا ہے۔ جیسا کہ جعفر نے کہا: ’’اس نے ان کا ارادہ بھی کیا اور ان سے ارادہ بھی کیا۔‘‘ اب ایک دوسرے کی خیر خواہی کا ارادہ کر کے اسے امرو نہی کرتا ہے اور اس کی نافع شی کو بیان کرتا ہے۔ چاہے اس کے ساتھ اس نے اس فعل پر اس کی اعانت کا ارادہ نہ بھی کیا ہو۔ کیونکہ دوسرے کو کسی بات کے امر و نصیحت کرنے میں مصلحت ہونے سے