کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 96
ہے۔ اور جو اس بات کا اقرار نہیں کرتے، وہ ربوبیت اور الٰہیت میں فرق نہیں کرتے اور وہ رب تعالیٰ کو معبود لذاتہ قرار نہیں دیتے اور نہ وہ اس کی طرف دیکھنے سے تلذذ کو ثابت کرتے ہیں اور نہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ اللہ اہل جنت کے نزدیک جنت کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہو گا۔
در حقیقت یہ ان لوگوں کا قول ہے جو ملت ابراہیم سے خارج اور اللہ کے اس کے ماسوا سے معبود ہونے کے منکر ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب اوائل اسلام میں یہ قول ظاہر ہوا تو اس کے قائل کو قتل کر دیا گیا۔ یہ جعد بن درہم تھا جسے خالد بن عبداللہ قسری نے عیدالاضحیٰ کے دن عید گاہ میں علماء کی مرضی کے عین مطابق ذبح کر دیا تھا اور یہ کہا کہ: اے اہل اسلام! اپنی قربانیاں کرو۔ اللہ تمہاری قربانیاں قبول کرے اور میں جعد بن درہم کو قربان کر رہا ہوں ۔ کیونکہ جعد کا گمان ہے کہ اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل نہیں بنایا اور نہ موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا۔ اللہ جعد کی ان باتوں سے بے حد بلند و برتر ہے۔ پھر منبر سے اتر کر جعد کو ذبح کر دیا۔
ایک صحیح حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’جب جنت والے جنت میں داخل ہو چکیں گے تو ایک منادی یہ نداء کرے گا۔ اے جنت والو! اللہ کے ہاں تمہارے لیے ایک وعدہ ہے وہ اس وعدہ کو تم لوگوں کے ساتھ پورا کرنا چاہتا ہے۔‘‘ وہ پوچھیں گے: وہ وعدہ کیا ہے؟ کیا اس نے ہمارے چہرے سفید (روشن) نہیں کر دیے اور ہماری تولیں بھاری نہیں کر دیں اور ہمیں جنت میں داخل کر کے جہنم سے بچا نہیں لیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’پس رب تعالیٰ حجاب کو کھول دیں گے اور اہل جنت اسے دیکھیں گے۔ پس رب تعالیٰ انہیں اپنی زیارت سے زیادہ محبوب کوئی شی نہ دے گا اور یہی ’’زیادتی‘‘ ہے (جس کا قرآن میں تذکرہ ہے)۔[1]
سنن میں متعدد طرق سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں یہ ارشاد فرمایا کرتے تھے: ’’اور میں تجھ سے تیرے چہرے کی طرف دیکھنے کی لذت کا اور تیری ملاقات کے شوق کا سوال کرتا ہوں ۔‘‘
امام احمد اور امام نسائی نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں یہ ارشاد فرمایا کرتے تھے: ’’میں تجھ سے تیرے چہرے کی طرف دیکھنے کی لذت کا اور تیری ملاقات کے شوق کا سوال کرتا ہوں جو کسی ضرر رساں مضرت کے اور گمراہ کن فتنہ سے خالی ہو۔‘‘[2]
جو لوگ اس کے محبوب ہونے کو اور اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ اس کی غیر سے محبت اس کی مشیئت کے معنی میں
[1] صحیح مسلم: ۱؍ ۱۶۳۔ کتاب الایمان: باب اثبات رؤیۃ المومنین فی الآخرۃ ربہم سبحانہ وتعالیٰ۔
[2] یہ دو طویل احادیث کا جز ہے۔ پہلا حدیث سنن النسائی: ۳؍ ۴۶، ۴۷۔ کتاب السہو باب الدعاء بعد الذکر میں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ جبکہ دوسری حدیث الفاظ کے اختلاف کے ساتھ پہلی حدیث کے معنی میں ہے جو ’’مسند احمد: ۵؍ ۱۹۱، ط، حلبی۔ میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔