کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 95
اگرچہ اس نے ان کو ایک حکمت کے تحت پیدا بھی کیا ہے جو ان کی پیدائش کو مقتضی تھی اور جب اس نے کفر وغیرہ کو بندے نے ناپسند کیا کیونکہ یہ بندے کے لیے مضر ہے اور اللہ اسے ناپسند فرماتا ہے کہ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اسے ان کا پیدا کرنا بھی ناپسند ہے۔ کیونکہ ان میں اس کی حکمت ہے۔ کیونکہ ایک فعل کبھی ایک سے اچھا تو دوسرے سے برا ہوتا ہے۔ کیونکہ دونوں فاعلوں کا حال جدا جدا ہوتا ہے۔
تب پھر یہ لازم کیسے آ گیا کہ ایک فعل جو بندے سے قبیح ہو وہ رب تعالیٰ سے بھی قبیح ہو گا۔ حالانکہ مخلوق کو اللہ سے کوئی نسبت بھی نہیں اور جب مخلوق بھی بسا اوقات ایک ایسی بات کا ارادہ کر لیتی ہے جو اسے ناگوار ہوتا ہے۔ جیسے مریض کا ایسی دوا پینے کا ارادہ کرنا جو اسے ناگوار ہو۔ اور کبھی انسان ایسی بات بھی پسند کرتا ہے جس کا وہ ارادہ نہیں کرتا۔ جیسے مریض کا ایسے کھانے کو پسند کرتا جو اس کے حق میں مضر ہو۔ اور جیسے روزہ دار کا کھانے اور پینے کو پسند کرتا حالانکہ وہ ان کا ارادہ نہیں رکھتا اور بندے کا شہوتوں کو پسند کرنا حالانکہ وہ اپنے عقل و دین دونوں کے اعتبار سے ان کو ناپسند کرتا ہے۔
پس جب ایک بغیر دوسرے کا ثبوت معقول ہے اور یہ کہ مخلوقات میں ایک دوسرے کو مستلزم نہیں ۔ تو بھلا ایک کا ثبوت دوسرے کے بغیر حق تعالیٰ کے حق میں کیونکر نا ممکن ہے۔
کبھی یہ کہتے ہیں کہ یہ سب امور مراد اور محبوب ہیں ۔ لیکن ان میں مراد لنفسہ ہوتا ہے۔ یہ مراد بالذات ہے اور اللہ کو محبوب اور پسند ہوتا ہے اور کوئی ان میں سے مراد الغیر ہوتا ہے اور وہ مراد بالعرض ہوتا ہے کیونکہ وہ محبوب بالذات اور مراد بالذات تک وسیلہ ہوتا ہے۔
پس انسان عافیت کو بنفسہ چاہتا ہے اور دوا پینے کو اس تک وسیلہ کے اعتبار سے چاہتا ہے۔ البتہ بنفسہ محبوب ہونے کی وجہ سے نہیں چاہتا۔ تو جب مراد کی دو قسمیں ہیں : (۱) ایک مراد لنفسہ، یہ بالذات محبوب ہے۔ (۲) اور مراد لغیرہ، یہ غیر تک وسیلہ کے لیے مراد ہے۔ گو کبھی محبوب لنفسہ نہ بھی ہو۔ تو پھر اس باب میں محبت اور ارادہ میں فرق کرنا ممکن ٹھہرا۔
ارادہ کی دو قسمیں ہیں ۔ جو چیز محبوب ہو، وہ مراد لنفسہ ہوتی ہے اور جو فی نفسہ محبوب نہ ہو وہ مراد لغیرہ ہوتی ہے اور اسی تقسیم پر اس مسئلہ کی بنیاد ہے کہ رب تعالیٰ کا خود اپنے محبت کرنا اور رب تعالیٰ کا اپنے بندوں کے لیے محبت کرنا۔ سو جن کے نزدیک محبت و رضا ارادہ عامہ ہے، ان کا قول ہے کہ حقیقت میں رب تعالیٰ محبت نہیں کرتا اور وہ رب تعالیٰ کے اپنے بندوں سے محبت کرنے کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ وہ انہیں ثواب دے گا اور بندوں کا رب تعالیٰ سے محبت کرنا یہ اس کی طاعت کرنے کا ارادہ کرنا ہے اور اس کا تفرب تلاش کرنا ہے۔
ان میں سے اکثر جماعتوں کا یہ قول ہے کہ وہ خود محبوب اور مستحق محبت ہے۔ البتہ اس کا دوسرے سے محبت کرنا یہ مشیئت کے معنی میں ہے۔
رہے اسلاف، حدیث و تصوف کے ائمہ اور اکثر اہل کلام و نظر تو وہ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ رب تعالیٰ محبوب لذاتہ ہے بلکہ صرف وہی محبوب لذاتہ کہلانے کا حق دار ہے اور یہ الوہیت کی حقیقت ہے اور یہی ملت ابراہیم کی حقیقت