کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 89
﴿اَوَ لَمَّآ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْہَا قُلْتُمْ اَنّٰی ہٰذَا قُلْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِکُمْ﴾ (آل عمران: ۱۶۵)
’’اور کیا جب تمھیں ایک مصیبت پہنچی کہ یقیناً اس سے دگنی تم پہنچا چکے تھے تو تم نے کہا یہ کیسے ہوا؟ کہہ دے یہ تمھاری اپنی طرف سے ہے۔‘‘
وہ اس لیے کہ وہ محسنِ عدل ہے۔ اس سے ملنے والی ہر نعمت اس کا فضل ہے اور اس کی ہر نعمت اس کا عدل ہے اور وہ بندے پر اس کی طرف سے بنا کسی سبب کے فضل و احسان کر کے محسن ہے۔ جبکہ بدون گناہ کے وہ عقاب نہیں کرتا۔ اگرچہ اس نے ان سب افعال کو اپنی حکمت کے تحت پیدا کیا ہے۔ بے شک وہ حکیم عادل ہے۔ اشیاء کو ان کے مواقع پر رکھتا ہے اور کسی پر ظلم نہیں کرتا۔
پھر جب غیر خدا اپنے نوکر کو اس کی زیادتی پر سزا دے سکتا ہے، چاہے وہ اس بات کا مقر بھی ہو کہ بندوں کے افعال کا اخالق اللہ ہے اور یہ اس کی طرف سے ظلم بھی نہیں مقصود ہوتا۔ تو رب تعالیٰ اس بات کا بدرجہ اولیٰ مستحق ہے کہ گناہ پر سزا دینے میں وہ ظالم نہ ہو۔ تو جب انسان ایک مقتضائے حکمت مصلحت کو کر سکتا ہے جو کسی حیوان کو تعذیب دیے بغیر حاصل نہ ہوتی ہو (جیسے جانور کو گوشت کھانے کے لیے ذبح کرنا) اور وہ ایسا کر کے بھی ظالم نہ کہلائے تو ایسی تعذیب رب تعالیٰ سے بدرجہ اولیٰ ظلم نہ ہو گی۔
دوم:....یہ کہا جائے کہ یہ افعال اللہ کی طرف سے بایں معنی ہیں کہ اس نے ان کو اپنے غیر میں پیدا کیا ہے اور انہیں اپنے غیر کا فعل قرار دیا ہے اور یہ بندے کی طرف سے بایں معنی ہیں کہ یہ اس کا فعل، اس کی ذات کے ساتھ قائم اور اس کا کسب ہیں جن کے ذریعے وہ جلبِ منفعت اور دفعِ مضرت کا کام لیتا ہے اور بندے کا یہ اعتبار کہ وہ فعل اس کے ساتھ قائم ہے۔ اور اس کے ضرر و انتفاع کا حکم خاص اسی کی طرف لوٹتا ہے کہ یہ ایسا اعتبار ہے جو اللہ کے شایانِ شان نہیں ۔ کیونکہ بندوں کے افعال رب تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم نہیں ہوتے اور نہ وہ ان افعال سے متصف ہوتا ہے اور نہ ان کے وہ احکام ہی اس کی طرف لوٹتے ہیں جو اپنے موصوفات کی طرف لوٹتے ہیں ۔
رب تعالیٰ کا یہ اعتبار کہ اس نے ان افعال کو پیدا کیا اور ان کو اپنے غیر کا، ان میں قدرت، مشیئت اور فعل کو پیدا کر کے، فعل بنایا ہے، ایسا اعتبار ہے جو بندہ کے لائق نہیں کہ ان باتوں پر سوائے اللہ کے کسی کو قدرت نہیں ۔ اس لیے اکثر مثبتین قدر کا قول ہے کہ: بندے کے افعال رب تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور بندے کا فعل ہیں ۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اللہ کا فعل ہیں تو مراد اللہ کا مفعول ہونا ہوتا ہے۔ نا یہ کہ یہ وہ فعل ہے جو مصدر کا مسمی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خلق اور مخلوق میں فرق کرتے ہیں ۔ یہ اکثر ائمہ کا قول ہے اور یہ قاضی ابو یعلی کے دو اقوال میں سے آخری قول ہے اور یہی امام احمد کے اکثر اصحاب کا قول ہے اور یہی قاضی ابو یعلی کے دو بیٹوں قاضی ابو حازم اور قاضی ابو الحسین وغیرہ کا قول ہے۔