کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 88
اس کی مشہور تفسیر ’’ام خلقو من غیر رب‘‘ ہے۔ جبکہ ایک تفسیر ’’ام خلقوا من غیر عنصر‘‘ بھی ہے۔اس طرح موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں جب ایک قبطی مارا گیا تو انہوں نے یہ کہا تھا: ﴿ہٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ﴾ (القصص: ۱۵) ’’کہا یہ شیطان کے کام سے ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿مَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ وَ مَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ﴾ (النسآء: ۷۹) ’’جو بھلائی تجھے پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو برائی تجھے پہنچے وہ تیرے نفس کی طرف سے ۔‘‘ اسی کے ساتھ اس سے قبل یہ ارشاد بھی پڑھیے: ﴿قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ﴾ (النسآء: ۷۸) ’’کہہ دے سب اللہ کی طرف سے ہے۔‘‘ سویہاں پرحسنات و سئیات سے مراد نعمتیں اور مصائب ہیں ۔ اسی لیے فرمایا: ’’مَآ اَصَابَکَ‘‘ اور یہ نہیں فرمایا کہ ’’ما اصبت‘‘ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنْ تَمْسَسْکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْہُمْ وَ اِنْ تُصِبْکُمْ سَیِّئَۃٌ یَّفْرَحُوْا بِہَا﴾ (آل عمران: ۱۲۰) ’’اگر تمھیں کوئی بھلائی پہنچے تو انھیں بری لگتی ہے اور اگر تمھیں کوئی تکلیف پہنچے تو اس پر خوش ہوتے ہیں ۔‘‘ اور فرمان الٰہی ہے: ﴿اِنْ تُصِبْکَ حَسَنَۃٌ تَسُؤْہُمْ وَ اِنْ تُصِبْکَ مُصِیْبَۃٌ یَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَآ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَ یَتَوَلَّوْا وَّ ہُمْ فَرِحُوْنَo﴾ (التوبۃ: ۵۰) ’’اگر تجھے کوئی بھلائی پہنچے تو انھیں بری لگتی ہے اور اگر تجھے کوئی مصیبت پہنچے تو کہتے ہیں ہم نے تو پہلے ہی اپنا بچاؤ کر لیا تھا اور اس حال میں پھرتے ہیں کہ وہ بہت خوش ہوتے ہیں ۔‘‘ رب تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ نعمتیں اور مصائب اس کی طرف سے ہیں ۔ پس نعمت تو ابتداء سے ہی اللہ کی طرف سے ہے جبکہ مصیبت نفس انسانی سے کسی سبب سے ہوتی ہے اور وہ اس کے گناہ ہیں ۔ جیسا کہ ایک دوسری آیت ارشاد ہے: ﴿وَمَا اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیکُمْ وَیَعْفُو عَنْ کَثِیْرٍo﴾ (الشوریٰ: ۳۰) ’’اور جو بھی تمھیں کوئی مصیبت پہنچی تو وہ اس کی وجہ سے ہے جو تمھارے ہاتھوں نے کمایا اور وہ بہت سی چیزوں سے در گزر کر جاتا ہے۔‘‘ ایک دوسری جگہ ارشاد ہے: