کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 87
کیا ہوتا ہے۔ بلکہ یہ تزیینِ نفس اور تزیینِ شیطان سے ہوتی ہے جو بندہ شیطان کے امر سے کرتا ہے۔ یہی مطلب ہے اس بات کا کہ وہ مجھ سے اور شیطان سے ہو گی۔ تب بھی اس کے متعدد جوابات ہیں : اوّل:....یہ کہا جائے کہ اعمال، اقوال، طاعات اور معاصی سب بندے سے ہیں بایں معنی کہ وہ بندے کے ساتھ قائم ہیں اور اس کی قدرت و مشیئت سے حاصل ہیں ۔ وہ ان سے متصف بھی ہے اور متحرک بھی، جن کا حکم اس کی طرف لوٹتا ہے۔ کیونکہ بسا اوقات محل کے ساتھ متصف شی کے بارے میں یہ بھی کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ اس محل سے نکلی ہے۔ چاہے اس کو اس کا اختیار نہ بھی ہو۔ جیسا کہ کہتے ہیں : یہ ہوا فلاں خطے کی ہے، یہ پھل فلاں درخت کا ہے، یہ غلہ فلاں کھیت کا ہے۔ تو جو کسی زندہ با اختیار سے صادر ہو، اسے بدرجہ اول یہ کہنا جائز ہو گا کہ یہ شی فلاں سے ہے اور وہ اللہ سے ہے، بایں معنی کہ اس نے اسے پیدا کیا ہے اس حال میں کہ وہ اس کے غیر سے قائم ہے اور اس نے ان چیزوں کو بندے کا عمل، کسب اور صفت ٹھہرایا ہے۔ اس نے ان کو اپنی مشیئت اور قدرت سے اس بات کے واسطے سے پیدا کیا ہے کہ اس نے بندے کی قدرت و مشیئت کو پیدا کیا جیسا کہ وہ مسببات کو ان کے اسباب کے ذریعے پیدا کرتا ہے۔ پس وہ بادلوں کو ہواؤں سے، اور بارش کو بادلوں سے اور نباتات کو بارش سے پیدا کرتا ہے۔ حوادث کی ان کے خالق کی طرف نسبت ایک اعتبار سے ہوتی ہے۔ جبکہ ان کے اسباب کی طرف نسبت ایک دوسرے اعتبار سے ہوتی ہے۔ پس یہ اللہ کی طرف سے اس اعتبار سے ہیں کہ یہ اللہ کی مخلوق ہیں جو اس کے غیر میں پیدا کی گئی ہیں ۔ اور جیسا کہ مخلوقات کی جملہ حرکات و صفات اس سے ہیں جبکہ بندے اس کی صفتِ قائمہ ہونے کے اعتبار سے ہیں ۔ جیسا کہ حرکت کا صدور اس متحرک سے ہوتا ہے جو اس حرکت سے متصف ہو۔ چاہے وہ جماد ہی ہو۔ پس اس وقت کیا ہو گا جب وہ متحرک حیوان ہو؟ تب بھی اضافت کی جہت کے مختلف ہونے کی وجہ سے بندے اور رب کے درمیان کوئی شرکت نہیں ۔ جیسا کہ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ یہ فلاں عورت سے ہے تو یہ اس اعتبار سے ہے کہ اس عورت نے اسے جنا ہے اور یہ اللہ کی طرف سے ہے، تو یہ اس اعتبار سے ہے کہ اسے اللہ نے پیدا کیا ہے۔ کہ دونوں نسبتوں میں کوئی تناقض نہیں ۔ لہٰذا جب ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ پھل درخت کا ہے اور یہ غلہ کھیت کا ہے تو یہ بایں معنی ہوتا ہے کہ ان کا اس میں حدوث ہوا ہے اور یہ اللہ کی طرف سے ہے بایں معنی ہوتا ہے کہ اس نے اس پھل اور کھیتی کو پیدا کیا ہے۔ کہ ان دونوں باتوں میں کوئی تناقض نہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْئٍ اَمْ ہُمُ الْخَالِقُوْنَ﴾ (الطور: ۳۵) ’’یا وہ کسی چیز کے بغیر ہی پیدا ہوگئے ہیں ، یا وہ (خود) پیدا کرنے والے ہیں ؟‘‘