کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 86
اور فرمایا: ﴿حٰمٓo تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِo غافر الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِ ذِیْ الطَّوْلِ لَآ اِِلٰہَ اِِلَّا ہُوَ﴾ (غافر: ۱۔ ۳) ’’حٓمٓ۔اس کتاب کا اتارنا اللہ کی طرف سے ہے، جو سب پر غالب ، ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ گناہ بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا، بہت سخت سزا والا، بڑے فضل والا، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔‘‘ یہ اس لیے کہ وہ امور جن میں بعض بندوں کے اعتبار سے شر ہوتا ہے۔ رب تعالیٰ کی ان کے پیدا کرنے میں ایک حکمت ہوتی ہے۔ وہ ان کو پیدا کر کے بھی حمید و مجید ہے اسی کی بادشاہی اور اسی کی تعریف ہے اور اس کی طرف نسبت کے اعتبار سے یہ امور شر نہیں ہیں اور نہ مذموم ہی ہیں ۔ سو اس کی طرف ایسی کسی بات کی نسبت نہ کی جائے گی جو اس کی نقیض سمجھی جائے۔ جیسا کہ رب تعالیٰ بیماریوں ، تکلیفوں ، ناگوار ہواؤں ، بدبوؤں ، بد صورتوں ، خبیث اجسام وغیرہ کا خالق ہے جیسے سانپ، بچھو، غلاظتیں اور نجاستیں وغیرہ۔ کیونکہ اس کی اس میں زبردست حکمت ہے۔ پس جب یہ کہا جائے گا کہ یہ ناگوار ہوائیں اور گندگیاں اللہ کی طرف سے ہیں ۔ وہ اس بات کا وہم ڈالتا ہے کہ شاید یہ ناگوار بدبوئیں اللہ سے نکلی ہیں ۔ حالانکہ اللہ اس بات سے بری ہے۔ اسی طرح جب یہ کہا جائے گا کہ قبائح یا معاصی اللہ کی طرف سے ہیں کہ اس سے کبھی اس بات کا وہم ہوتا ہے کہ یہ باتیں اللہ کی ذات سے نکلی ہیں جیسا کہ بندے کی ذات سے نکلتے ہیں جیسا کہ متکلم کی ذات سے کلام نکلتا ہے۔ حالانکہ اللہ کی ذات اس سے منزہ ہے۔ یا اس سے اس بات کا وہم ہوتا ہے کہ یہ گندی چیزیں اس سے قبیح اور بری ہیں ۔ حالانکہ وہ اس سے بری ہے۔ بلکہ تفویض اور تعلیل دونوں اقوال کی رو سے رب تعالیٰ کی ہر آفرینش حسن ہی حسن ہے۔ اسی طرح ذوائقوں ، رنگوں اور بوؤں کے بارے میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ یہ میٹھا یا کڑوا ذائقہ اللہ کی طرف سے ہے یا اس بوٹی سے ہے۔ یا یہ اچھی یا بری بو اللہ کی طرف سے ہے یا فلاں عین سے ہے۔ اس طرح کی اور بھی متعدد مثالیں ہیں اور کبھی جب یہ کہا جائے گا کہ: ’’یہ اللہ کی طرف سے ہے۔‘‘ تو اس بات کا بھی وہم ہوتا ہے کہ شاید اللہ نے اس کا حکم دیا ہے۔ حالانکہ نہ تو فحش بات کا حکم دیتا ہے اور نہ فساد کو پسند کرتا ہے اور نہ ہی اپنے بندوں سے کفر پر راضی ہوتا ہے۔‘‘ یہ حضرتِ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس قول کے مثل ہے جب ان سے مفوضہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:’’ میں ان کے بارے میں اپنی رائے سے کہوں گا۔ اگر تو یہ رائے درست ہوئی تو اللہ کی طرف سے ہو گی اور اگر یہ رائے خطا ہو گی تو میرے اور شیطان کی طرف سے ہو گی اور اللہ اور اس کا رسول دونوں اس سے بری ہوں گے۔‘‘ اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی علامہ کے بارے میں کہا تھا اور ایسا ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی کہا تھا۔ ان لوگوں کی مراد یہ تھی کہ درستی کا کبھی رب تعالیٰ نے امر کیا ہوتا ہے، اور اسے مشروع کیا ہوتا ہے اور اسے پسند ہوتی ہے اور وہ اس سے راضی ہوتا ہے۔ جبکہ کا نہ تو اس نے امر دیا ہوتا ہے، نہ اسے محبوب ہوتی ہے اور نہ اس نے خطا کو مشروع