کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 85
﴿وَاَنَّا لَا نَدْرِی اَشَرٌّ اُرِیْدَ بِمَنْ فِی الْاَرْضِ اَمْ اَرَادَ بِہِمْ رَبُّہُمْ رَشَدًاo﴾ (الجن: ۱۰)
’’اور یہ کہ بے شک ہم نہیں جانتے کیا ان لوگوں کے ساتھ جو زمین میں ہیں ، کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے، یا ان کے رب نے ان کے ساتھ کسی بھلائی کا ارادہ فرمایا ہے۔‘‘
اور سورۂ فاتحہ میں ارشاد ہے:
﴿اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمo صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْo غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنo﴾ (الفاتحۃ: ۵۔ ۷)
’’ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا، جن پر نہ غصہ کیا گیا اور نہ وہ گمراہ ہیں ۔‘‘
پس اللہ نے ذکر کیا ہے کہ وہ فاعل نعمت ہے جبکہ فاعل غضب کو حذف کر دیا اور ضلالت کو ان کی طرف منسوب فرمایا اور حضرت خلیل علیہ السلام فرماتے ہیں :
﴿وَاِِذَا مَرِضْتُ فَہُوَ یَشْفِینِo﴾ (الشعراء: ۸۰)
’’اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔‘‘
اس لیے جملہ اسمائے حسنیٰ اللہ ہی کے ہیں ۔ رب تعالیٰ نے اپنے وہ اسمائے حتیٰ رکھے ہیں جو سراسر خیر کو ہی مقتضی ہیں ۔ اور شر کو صرف مفعولات میں ذکر کیا جائے گا۔ جیسا کہ ارشاد ہے:
﴿اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ وَ اَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo﴾ (المائدۃ: ۹۸)
’’جان لو! بیشک اللہ بہت سخت عذاب والا ہے اور بیشک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘
اور سورۂ انعام کے آخر میں ارشاد ہے:
﴿اِنَّ رَبَّکَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ وَاِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo﴾ (الانعام: ۱۶۵)
’’بے شک تیرا رب بہت جلد سزا دینے والا ہے اور بے شک وبے حد بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
اور سورۂ اعراف میں ارشاد ہے:
﴿اِنَّ رَبَّکَ لَسَرِیْعُ الْعِقَابِ وَ اِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo﴾ (الاعراف: ۱۶۷)
’’بے شک تیرا رب یقیناً بہت جلد سزا دینے والا ہے اور بے شک وہ بے حد بخشنے والا رحم والا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿نَبِّیْٔ عِبَادِیْٓ اَنِّیْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُo وَ اَنَّ عَذَابِیْ ہُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُo﴾ (الحجر: ۳۹۔ ۵۰)
’’میرے بندوں کو خبر دے دے کہ بے شک میں ہی بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والاہوں ۔ اور یہ بھی کہ بے شک میرا عذاب ہی دردناک عذاب ہے۔‘‘