کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 74
جہمیہ اور قدریہ پر یہ متکلمین کی حجتِ الزامیہ ہے۔ جبکہ اشعریہ، کرامیہ، اور معتزلہ اور ان کے موافق فقہاء وغیرہ کی بھی یہی دلیل ہے، اور اس کا دوام ان کے نزدیک ہے۔ جس نے اُسے یعنی رب تعالیٰ کو یہ ٹھہرایا ہے کہ اسے اپنی قدرت اور مشیئت کے ساتھ تکلم اور فعل ممکن نہ تھا، پھر اس لیے ممکن ہو گیا تو یہ ترجیح بلا مرجع کو اور اس تسلسل اور دور کو مستلزم ہے جس کے امتناع پر اتفاق ہے، اور ممتنع تسلسل موثرات اور تمام تاثیر میں ہے۔ البتہ رہا آثار میں تسلسل تو یہی موردِ نزاع ہے۔ یہ لوگ ان دو قسموں کو باطل قرار دیتے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ جو چیز غیر متناہی ہو اس میں تفاوت ممتنع ہے، اور جمہور فلاسفہ، آئمہ اہلِ ملل کے ساتھ ہیں ؛ وہ دوسری قسم کا انکار نہیں کرتے۔ اس صورت میں ان فلسفیوں کو یہ کہا جائے گا کہ اگر تو آثار میں تسلسل ممتنع ہے تو تمہار اقول باطل ٹھہرا، اور قول کے باطل ہونے کے ساتھ ہی تمہاری دلیل بھی باطل ٹھہری۔ کیونکہ قول باطل پر حجت صحیحہ قائم نہیں کی جا سکتی۔ اگر تسلسل فی الآثار ممکن ہے تو تمہاری دلیل باطل ٹھہری۔ کیونکہ ممکن ہے کہ اس کے کلمات غیر متناہی ہوں ، اور یہ کہ وہ ازل سے اپنی مشیئت کے ساتھ متکلم بھی ہے اور فعال بھی ہے، اور وہ ایک کے بعد ایک فعل کرتا ہے جس میں افعال اور مفعولات میں سے کوئی معین شے قدیم نہیں ہوتی۔ تب پھر دلیل دونوں صورتوں میں باطل ٹھہری۔ کیونکہ جب تسلسلِ آثار ممکن ہوا تو افلاک کا حدوث اسے قبل کے اسبابِ حادثہ کی وجہ سے ممکن ہوا۔ جملہ انبیاء کرام علیہم السلام اس بات کی خبر دی ہے کہ رب تعالیٰ ہے زمینوں اور آسمانوں کو اور ان کے درمیان کی چیزوں کو چھ دن میں پیدا کیا ہے۔ جبکہ اس کا عرش ان کے پیدا کیے جانے سے قبل پانی پر تھا۔ یہ بات ضرورت اور جملہ رسولوں کے دین میں نقل متوار سے منقول ہوتی چلی آ رہی ہے۔ جبکہ تمہاری کوئی دلیل ان کے قدم کو لازم قرار نہیں دیتی۔ لہٰذا تمام افلاک کے قدم کا قول کرنا۔ اس میں کوئی حجتِ عقلیہ نہیں ، اور یہ بلا سبب پیغمبروں کی تکذیب ہے۔ پھر عقلِ صریح بھی تمہارا قول باطل قرار دیتی ہے۔ کیونکہ افلاک وغیرہ عالم مستلزم حوادث ہیں ۔ اگر یہ قدیم ہوتے تو لازم آتا ہے کہ یہ حوادث اپنے ایسے موجب سے صادر ہوئے ہیں جو قدیم ہے۔ تب پھر موجب اپنے ایسے موجب و مقتضی کو مستلزم ہوتا جو اس سے متاخر نہیں ہے۔ کیونکہ اگر اس کے موجب کا اس سے تاخر جائز ہوتا تو یہ علتِ تامہ نہ ہوتا۔ کیونکہ علتِ تامہ معلول کو مستلزم ہوتی ہے۔ تو جب یہ علتِ تامہ ہی نہ ٹھہری تو اس کے موجب کا اس کے ساتھ اقتران ممتنع ٹھہرا۔ کیونکہ بدون علتِ تامہ کے معلول کا قدم ممتنع ہے۔ پھر یہ کہ اگر اس کے موجب کا تاخر جائز ہوتا۔ جبکہ ازل میں اس کے ساتھ اس کا اقتران بھی جائز ہو تو اس کی دو میں سے ایک کے ساتھ تخصیص ایسے مرجح کی محتاج ہوتی جو موجب بالذات نہ ہوتی، اور یہاں اس کے سوا او رکوئی مرجح ہے نہیں ۔ سو افلاک وغیرہ کا وجود ممتنع ٹھہرا، اور یہ باطل ہے کیونکہ افلاک موجود بھی ہیں اور عیاناً مشہود بھی ہیں ، او ریہ انہیں بھی تسلیم ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ افلاک علتِ قدیمہ کے ساتھ معلول ہیں ، اور وہ موجب بالذات ہے اور اس کا موجب اس سے متاخر نہیں ہوتا۔