کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 73
علماء جنہوں نے اس بات سے قدریہ کے خلاف حجت پکڑی ہے، اس باب میں تناقض کا شکار ہوئے ہیں ۔ لہٰذا جب ان علماء نے خلقِ افعال کے مسئلہ میں قدریہ سے مناظرہ کیا ہے تو ان کے خلاف اسے دلیل بنایا ہے، اور کہا ہے کہ ممکن کے وجود کی اس کے عدم پر ترجیح مرجح تام سے ہی ہوگی۔ چاہے اس کا صدور قادر مختار ہو یا غیر قادر سے ہو۔ ان لوگوں نے حدوث عالم کے مسئلہ میں تکلم کیا ہے۔ جب ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ حادث کے لیے سببِ حادث کا ہونا لازم ہے تو یہ لوگ قدریہ جیسا جواب دیتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ قادرِ مختار اپنے مقدور کی دو طرفوں میں سے ایک کو بلا مرجح کے ترجیح دیتا ہے۔ ان لوگوں نے قادر اور غیر قادر میں فرق کیا ہے۔ جیسا کہ قدریہ کا قول ہے۔ اور کبھی یہ بندے اور رب کے فعل میں یہ کہہ کر فرق کرتے ہیں کہ رب تعالیٰ اپنی اس مشیئتِ قدیمہ کے ذریعہ ترجیح دیتا ہے جو اس کی ذات کے لوازم میں سے ہے۔ بخلاف عبد کے کہ اس کا ارادہ غیر سے حادث ہوتا ہے۔ لیکن اکثر لوگوں کا قول ہے کہ جو لوگ ازلی اور قدیم ارادہ کو تجدد شئے بغیر مرجح کے قرار دیتے ہیں ، اِن کا قول اُن کے قول کی جنس سے ہے۔ کیونکہ ارادہ کی جملہ وقتی مقدرات کی طرف نسبت ایک ہی ہے، اور جملہ ممکنات کی طرف نسبت بھی ایک ہی ہے، لہٰذا دو متماثلین میں سے ایک کی دوسرے پر ترجیح بلا مرجح ٹھہری۔ لہٰذا جب فاعل کی فعل سے قبل اور فعل کے وقت کی حالت یکساں ہوئی، پھر فعل کی وجہ سے دو میں سے ایک حال کے ساتھ اختصاص کو قرض کیا تو اس سے ترجیح بلا مرجح لازم آئی۔ ان فرقوں کا منتہائے نظر یہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ ان کے کلام کو نہیں جانتے۔ جیسے رازی وغیرہ اور وہ دہریوں کی علت، قدریوں کے قادر اور کلابیوں کے مرید کے درمیان متردد ہیں ۔ وہ رب تعالیٰ کو اپنی مشیئت و قدرت کے ساتھ ازل میں فعل اور کلام پر قادر نہیں مانتے۔ پھر ان دہریہ فلسفیوں نے جیسے ابنِ سینا وغیرہ، اس دلیل کو عالم کے حدوث کے ممتنع ہونے پر اور اس کے قدیم ہونے کے واجب ہونے کو، اپنی سب سے عمدہ دلیل قرار دیا ہے۔ لیکن ان کی مذہب کی یہاں کوئی دلیل نہیں ۔ کیونکہ اس دلیل کی غایت یہ ہے کہ یہ رب تعالیٰ کی فاعلیت کے دوام کو مستلزم ہے، اور یہ فلک وغیرہ اعیانِ عالم کے قدم پر کوئی دلالت نہیں کرتی۔ لیکن ان لوگوں کا قول ہے کہ یہ دلیل تسلسل کو لازم ہے، اور تسلسل محال ہے۔ اب تسلسل سے ان کی مراد تمام تاثیر میں تسلسل ہے، جیسا کہ پہلے گزرچکا۔ رہا آثار میں تسلسل تو اس کے وہ بھی قائل ہیں ۔ ہم بیان کر چکے ہیں کہ ممتنع تسلسل وہ ہے جو دورِ ممتنع کی جنس میں سے ہو۔ کیونکہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ بندہ یہ فعلِ حادث تب کرے گا جب تک کہ وہ اس فعل کو حادث نہ کرے گا کہ جس سے وہ اس کا فاعل ہو جائے۔ لہٰذا وہ اس کے حادث ہونے کے ساتھ حادث ہوگا۔ اسی طرح دوسرا ہے، اور یہ تمام تاثیر میں تسلسل ہوگا۔ جب یہ کہا جائے کہ بندہ ایک شے کو اس وقت حادث نہ کرے گاحتی کہ دوسری شے کو حادث کرلے ؛ تو یہ دورِ ممتنع ہوگا، اور یہی تسلسل ہے۔ جبکہ حوادث میں کلام مطلق ہو، اور حادث معین ہو تو یہ دورکی بات ہے۔