کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 71
کرنا پڑے گا کہ بندہ آغاز کار میں موجد نہ تھا، یہ منصب اسے بعد میں ملا ہے۔ لہٰذا یہ ایک امر حادث ہے اور اسے بھی کسی محدث کی ضرورت ہوگی، اس لیے کہ اگر بندہ شروع ہی سے محدث ہوتا تو یہ فعل حادث بھی دائمی ہوتا[ اس سے فعل حادث کا دوام لازم آئے گا]۔اور جب بندے کا محدث ہونا حادث ہے تو اس کے لیے کسی اور محدث کی ضرورت ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ بندے کا ارادہ محدث ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ: بنا بریں ارادہ حادث ہے اور اس کے لیے کسی اور محدث کا وجود ناگزیر ہے۔ اور اگر کہا جائے کہ یہ ارادہ بندے کے ارادہ سے عالم وجود میں آیا تو کہا جائے گا کہ اس ارادہ کیلئے بھی محدث کی ضرورت ہے۔ خلاصہ کلام! بندے میں جس کو آپ محدث فرض کریں گے؛ تو اس کے ساتھ اسی قسم کی گفتگو کی جاسکتی ہے، جیسے حادث اول میں بیان ہوئی۔ اگر بندہ کے افعال کو قدیم اور ازلی قرار دو گے تو یہ محال ہے۔ اس لیے کہ جو فعل بندہ سے وابستہ ہو وہ قدیم نہیں ہو سکتا، اور اگر کہو کہ فعل بندے کا وصف ہے اور اس کی قدرت اس میں پیدا کی گئی ہے اور اس میں اسی طرح گفتگو کا امکان ہے جس طرح ارادہ میں تو اس صورت میں بھی مرجّح تام کا وجود ضروری ہے۔ لیکن تمہاری یہ دلیل بھی تمہارے کام نہ آئے گی۔ جس کی یہ وجوہات ہیں : اوّل یہ کہ کہا جائے کہ جب اس میں پیدا کی گئی یہ قدرت اس میں فعل کے حدوث سے پہلے اور حدوث کے وقت پیدا کی گئی ہے تو ایک اور سببِ حادث کا ہونا لازم ہے جو اسے منضم ہو۔ وگرنہ دو مثلین میں سے ایک کا دوسرے پر بلا مرجع کے راجح ہونا لازم آئے گا۔ اسی طرح حوادث کا بلا سبب حادث کے حلاوث لازم آئے گا۔ وگرنہ اگر بندے کا حال فعل سے قبل اور فعل کے وقت یکساں ہو تو ایک حال کی دوسرے حال پر کوئی برتری اور فوقیت نہ ہوگی، اور اس حال کی کہ بندہ اس میں فاعل ہے، دوسرے حال کی بہ نسبت کوئی تخصیص باقی نہ رہے گی، اور اس میں دو متماثلین میں سے ایک کی دوسری پر بلا مرجیح لازم آئے گی۔ اسی طرح جب یہ کہا جائے کہ بندے کے فعل کا ہونا اور نہ ہونا دونوں ممکن ہیں ، اور اس کا وجود عدم پر کسی مرجح تام کے ساتھ راجح ہوگا۔ پھر یہ مرجح تام اگر تو بندے سے ہے تو اسی میں وہی قول ہے جو فعل میں ہے۔ تب پھر لازم ہوا کہ یہ مرجح تام اللہ کی طرف سے ہو، اور یہ کہ اس کا وجود فعل کے وجود کو مستلزم ہو۔ وگرنہ وہ مرجح تام نہ ہوگا۔ اسی لیے قدر کے مثبتین جمہور اہلِ سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ رب تعالیٰ نے نعمتوں کے ساتھ اہلِ ایمان کو خاص کیا ہے۔ ناکہ کافروں کو۔ وہ یوں کے اس نے اہلِ ایمان کو ہدایت سے نوازا ہے۔ اگر اللہ کی مومنوں پر نعمت کافروں پر نعمت کے جیسے ہوتی تو مومن مومن نہ ہوتا۔ جیسا کہ ارشادباری تعالیٰ ہے: ﴿وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِِلَیْکُمُ الْاِِیْمَانَ وَلَکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِِلَیْکُمُ الْاِِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْیَانَ اُوْلٰٓئِکَ ہُمْ الرَّاشِدُوْنَo﴾ (الحجرات: ۷)