کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 655
صدقات لیکر حاضر نہیں ہوا؛ وہ اس سے کم مرتبہ کا ہو جو صدقہ لیکر آیا؛ اور آپ نے اس پلا صلاۃ ؍ درود پڑھا۔ بلکہ کبھی وہ ان فقراء مہاجرین میں سے بھی ہوسکتا ہے جن کے پاس صدقہ لانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا تھا؛ مگروہ ان لوگوں سے افضل ہو جو صدقہ لیکر آئے ؛ اوران پر درود بھی پڑھا گیا۔ اور کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ صدقہ کا مال لینے والا ان لوگوں سے افضل ہو جو صدقہ دینے والے ہیں ۔ اور کبھی صدقہ دینے والا اس کے وصول کرنے والے بعض لوگوں سے افضل ہوسکتا ہے؛ کیونکہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔ پس کسی نوع کی فضیلت سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ انسان مطلق طور پر افضل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اغنیاء میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو جمہور فقراء سے افضل تھے۔ اور فقراء میں ایسے لوگ موجود تھے جو جمہور اغنیاء سے افضل تھے۔ پس حضرت ابراہیم ؛ داؤد ؛ اور سلیمان اور یوسف علیہم السلام اور ان کے امثال اکثر فقراء سے افضل ہیں اور حضرت یحی اور حضرت عیسیٰ رحمہم اللہ اغنیاء سے بہت زیادہ افضل تھے۔ عمومی طور پر اعتبار تقوی کا ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿ اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ﴾[الحجرات۱۳] ’’ بیشک اللہ کے ہاں تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے ؛ جوتم میں سے بڑا متقی ہو۔‘‘ پر ہر وہ انسان جو زیادہ متقی ہو؛ وہ مطلق طور پر افضل ہوگا۔ اور جب دو انسان تقوی میں برابرہوں تو وہ فضیلت میں بھی برابر ہوں گے۔ بھلے وہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک غنی ہو یا فقیر۔ یا ایک غنی ہو اور دوسرا فقیر۔ یا ایک عربی ہو اور ایک عجمی ؛ اور یا دونوں عربی یا دونوں عجمی ہوں ؛ یا دونوں قریشی ہوں ؛ یا دونوں ہاشمی ہوں ؛ یا یہ کہ ایک کسی ایک صنف سے تعلق رکھتا ہو؛ اور دوسرا دوسری صنف سے۔اگریہ مان لیا جائے کہ ان میں سے کسی ایک میں فضیلت کا وہ سبب پایا جاتا ہے جس کا دوسرے میں گمان نہیں کیا جاسکتا۔ جب واقعی ایسے ہی ہو؛ تواس میں حقیقی فضیلت پائی جاتی ہے جو کہ دوسرے میں نہیں پائی جاتی۔بھلے وہ اس کے حاصل کرنے پر قادر بھی ہو۔ پس عالم جاہل سے بہتر ہوتا ہے؛ اگرچہ جاہل بھی علم حاصل کرنے پر قادر ہوتا ہے[مگر اس نے علم حاصل تو نہیں کیا]۔ اور نیکوکار فاجر سے افضل ہوتا ہے۔ اگرچہ فاجر انسان بھی نیکی کے کام کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اور کمزور مؤمن طاقت ور کافر سے بہتر ہوتا ہے؛بھلے وہ بھی ایمان لانے پر کمزور مؤمن سے بڑھ کر قدرت رکھتا ہو۔ اس تفصیل سے وہ شبہ ختم ہو جاتا ہے جو اکثر طور پر اس جیسے امور میں پیش آتا ہے۔ [چوتھی جلد ؛ تحقیق رشاد سالم والی ختم ہوئی] ٭٭٭