کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 654
صرف حکم کی وجہ سے نہیں ۔ اور العیاذ باللہ ۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ ان میں سے کوئی ایک فحاشی کا ارتکاب کرتی تو اسے عذاب بھی دوگنا کرکے دیا جاتا۔
حضرت علی بن حسین رحمہ اللہ سے روایت کیا گیا ہے کہ آپ اس حکم کو تمام اہل بیت کے لیے عام قرار دیتے تھے۔ اور یہ کہ ان میں سے کسی ایک کی سزا بھی دوگنی ہی ہوگی۔اور اس کی نیکیاں بھی دوگنی ہوں گی۔ جیسا کہ مسجد الحرام میں جو کچھ کیا جائے اس پر ثواب یا عقاب دوگنا ہوتا ہے۔اور جو کوئی رمضان میں کوئی کام کرے تو وہ بھی دو چند کردیا جاتا ہے۔ اسی پر باقی چیزوں کو قیاس کیا جائے۔
ان تمام باتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کو عزت صرف تقوی کی بنیاد پر ملتی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’نہ ہی کسی عربی کو عجمی پر اورنہ کسی عجمی کو عربی پر؛ اور نہ کسی کالے کو سفید پر اور نہ ہی کسی سفید کو کالے پر کوئی فضلیت حاصل ہے؛ مگر تقوی کی بنیاد پر ۔ تمام لوگ حضرت آدم کی اولاد ہیں ۔ اور آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا کئے گئے تھے۔‘‘[مسند ۵؍۳۱۱]
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا:
’’ بیشک اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کے کبر و غرور اور آباء و اجداد پر فخر کرنے کو تم سے دور کردیا ہے۔ انسان دو ہی قسم کے ہوتے ہیں (۱) مومن متقی(۲) فاسق و فاجر۔[دیکھیں سابقہ تخریج]
پس آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑہنا مسلمانوں پر ان کا حق ہے؛ اور یہ نسب ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سبب ہے۔ اس لیے اس سے واجب یہ ہوتا ہے کہ بنی ہاشم میں ہر ایک پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کی اتباع میں درود بھیجنا لازم ہے؛وہ اس سے افضل ہو جس پر درود نہیں پڑھا جاتا۔کیا آپ دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَ تُزَکِّیْہِمْ بِہَا وَصَلِّ عَلَیْہِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمْ﴾
(التوبۃ ۱۰۳)
’’ ان کے مالوں سے صدقہ لے، اس کے ساتھ تو انھیں پاک کرے گا اور انھیں صاف کرے گا اور ان کے لیے دعا کر، بے شک تیری دعا ان کے لیے باعث سکون ہے۔‘‘
اور صحیحین کی حدیث میں ابن ابی اوفی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب لوگ صدقات لیکر آتے تو آپ ان پر درود پڑھتے۔ اور میرے والد صاحب بھی آب کی خدمت میں صدقات لیکر حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا: ((اللہم صل علی آل أبی أوفی)) ....’’اے اللہ آل ابی اوفی پر رحمتیں نازل فرما ۔‘‘
اس حدیث میں ان لوگوں کی فضیلت کا اثبات ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں صدقات لیکر آتے تھے؛ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر درود پڑھا کرتے تھے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جو کوئی بھی آپ کی خدمت میں اپنے فقر کی وجہ سے
[1] سنن الترمذي ۴؍۱۵۴ ؛ کتاب العلم ؛ باب في فضل الفقہ علی العبادۃ ؛ صححہ الألباني۔