کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 653
﴿ ہُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ لِیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النور﴾ (الاحزاب ۳۳] ’’وہی ہے جو تم پر صلوٰۃ بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے، تاکہ وہ تمھیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لائے۔‘‘ ایسے ہی لوگوں کو خیر و بھلائی کی بات سکھانے والوں پر بھی درود پڑھتے ہیں ؛ جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’ بیشک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے لوگوں کو خیر و بھلائی کی بات سکھانے والوں پر درود پڑھتے ہیں ۔‘‘[1] پس جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایمان اور لوگوں کو خیر کی تعلیم اور ان امور کی وجہ سے سب سے اکمل تھے جن کی بنا پر درود پڑھا جاتا ہے؛ تو آپ پر درود پڑھنا خبر اور امر ہر اعتبار سے افضل تھا۔ یہ ایسی خصوصیت ہے کہ اس جیسی خصوصیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے میں نہیں پائی جاتی۔ پس بنو ہاشم کے بھی کچھ حقوق ہیں ؛ اور ان کے فرائض بھی ہیں ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کسی انسان کو ایسا حکم دیتے ہیں جیسا حکم کسی دوسرے کو نہیں دیا؛ تووہ محض اس وجہ سے دوسروں سے افضل نہیں ٹھہرتا۔ بلکہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرے گا تو وہ اس اطاعت گزاری کی وجہ سے دوسروں سے افضل ہوگا۔ جیسا کہ حکمران ؛ اور دیگر وہ لوگ جن کو وہ حکم دیے گئے ہیں جو کسی دوسرے کو نہیں دیے گئے۔ پس ان میں سے جو کوئی اللہ کی اطاعت گزاری کرے گا وہ افضل ہوگا۔ اس لیے کہ اس کی اطاعت اکمل ہے۔اور جو کوئی ان میں سے اطاعت گزاری نہ کرے؛ تو کوئی دوسرا جو ایمان اور تقوی میں بڑھ کر ہو؛ اس سے افضل ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کو باقی تمام لوگوں پر فضیلت حاصل تھی۔ اورامہات المؤمنین میں سے جن کو فضیلت حاصل ہے؛ انہیں باقی تمام خواتین پر فضیلت حاصل ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے خلفائے راشدین کو وہ احکام دیے تھے جو دوسرے لوگوں کو نہیں دیے گئے تھے۔ پس انہوں نے اعمال صالحہ اس طرح بجا لائے کہ کسی دوسرے میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ تو اس وجہ سے وہ افضل قرار پائے۔ ایسے ہی ازواج مطہرات ؛ جن سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ مَنْ یَّاْتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ یُّضٰعَفْ لَہَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًاo وَ مَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ لِلّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ تَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِہَآ اَجْرَہَا مَرَّتَیْنِ وَ اَعْتَدْنَا لَہَا رِزْقًا کَرِیْمًاo﴾ (الاحزاب۳۰۔۳۱) ’’ اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو کھلی بے حیائی (عمل میں ) لائے گی اس کے لیے عذاب دوگنا بڑھایا جائے گا اور یہ بات اللہ پر ہمیشہ سے آسان ہے۔اور تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے گی اور نیک عمل کرے گی اسے ہم اس کا اجر دوبار دیں گے اور ہم نے اس کے لیے با عزت رزق تیار کر رکھا ہے۔‘‘ الحمد للہ کہ یہ امہات المؤمنین رضی اللہ عنہم یقیناً اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت گزار اورنیک اعمال کرنے والی تھیں ۔پس اسی لیے دوہرے اجر کی مستحق ٹھہریں ۔پس احکام الٰہی کی اطاعت کی وجہ سے ان کو یہ افضلیت حاصل ہوئی؛