کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 652
سے بڑھ کر خیر و بھلائی پائی جائے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنی ہاشم میں سے تھے۔قریش میں کوئی دوسرا آپ کے ہم پلہ نہیں تھا۔چہ جائے کہ پورے عرب یا غیر عرب میں آپ کی کوئی نظیر پائی جاتی۔ اورسابقین اولین عرب میں ایسے لوگ پائے جاتے تھے ؛ جن کی نظیر باقی تمام لوگوں میں نہیں پائی جاتی تھی۔ پس یہ ضروری ہے کہ اس صنف میں وہ افضل پایا جائے جس کی نظیر مفضول میں موجود نہ ہو۔ اور کبھی مفضول میں کوئی ایسا پایا جاتا ہے جو فاضل کے بہت سارے لوگوں سے افضل ہو۔ جیسا کہ وہ انبیائے کرام علیہم السلام جو عرب میں سے نہیں تھے؛ وہ ان عرب سے افضل ہیں جو انبیاء نہیں تھے۔ اور مؤمن اور متقی غیر قریش میں سے ؛ ان قریش سے افضل ہیں جو ایمان و تقوی میں ان کے ہم مثل نہیں ہیں ۔ اور ایسے ہی قریش میں سے متقی اور مومن ان بنی ہاشم سے افضل ہیں جو ایمان و تقوی میں ان جیسے نہیں ہیں ۔ اس باب میں معتبر یہی وہ بنیادی اصول ہے جس نے مطلق طور پر نسب کی وجہ سے فضیلت کے معیار کو کالعدم کردیا تھا۔اور یہ گمان بھی کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کو اس کے نسب کی وجہ سے ایمان و تقوی میں اس کے ہم مثل پر فضیلت دیتے ہیں ۔ کجا کہ کوئی انسان ایمان و تقوی میں دوسروں سے بڑھ کر ہو۔یہ دونوں قول خطا پر مبنی اور متقابل ہیں ۔ بلکہ نسبت کی وجہ سے فضیلت ایک اچھی چیز ہے؛ اور اس میں سبب کا گمان پایا جاتا ہے۔ اور ایمان و تقوی کی فضیلت جو اس کے حقائق اور مقاصد کو سچ ثابت کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔پہلی فضیلت اس وجہ سے ہے کہ وہ ایک سبب اور نشانی ہے۔ اس لیے کہ اجمالی طور پر باعتبار عدد یہ ان سے افضل ہیں ۔ اور دوسری فضیلت اس لیے کہ اس کا مقصود حقیقی اور منتہیٰ ہے۔اور جوکوئی اللہ تعالیٰ سے جتنا زیادہ ڈرنے والا ہو؛ وہ اللہ کے ہاں اتنی زیادہ عزت والا ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب اس چیز پر ملتا ہے۔ اس لیے کہ یہ وہ حقیقت ہے جو پائی گئی ہے۔ تو یہاں پر کسی حکم کو محض گمان کے ساتھ معلق نہیں رکھا گیا۔ اور اس لیے کہ اللہ تعالیٰ چیزوں کی حقیقی ماہیت کو جانتے ہیں ۔ پس اسباب اور علامات سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے سابقین اولین سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی آل محمد پر صلاۃ سے افضل ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنی رضامندی کی خبر دیدی ہے۔پس یہ رضا حاصل ہوچکی؛ جب کہ صلاۃ ؛ ایک استدعا اورسوال ہے؛ جو کہ ابھی پورا نہیں ہوا۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے آپ پر درود پڑھتے ہیں ۔ فرمان الٰہی ہے: ﴿ اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ﴾ (الاحزاب۵۶) ’’بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں ۔‘‘ تو آپ کی فضیلت محض آپ کی امت کے آپ پر درود پڑھنے کی وجہ سے نہیں ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے خصوصی طور پر آپ پر درود پڑھتے ہیں ۔اگرچہ عمومی طور پر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے عام اہل ایمان پر بھی درود پڑھتے ہیں ۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:
[1] البخاری ۴؍۱۴۰؛ کتاب الانبیاء ؛ باب قولہ تعالیٰ واتخذ اللّٰہ ابراہیم خلیلا۔ [2] مسلم ۴؍۲۰۷۴ ؛ کتاب الذکر والدعاء ؛ باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن و علی الذکر ؛ سنن الترمذي ۴؍۲۶۵؛ کتاب القرآن ؛ باب منہ ۳۔ و سنن ابن ماجہ ۱؍۸۲۔