کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 650
سے بنی ہاشم کو ، اور بنی ہاشم میں سے مجھے چن لیا ہے ۔‘‘
دوسری حدیث میں آتاہے : ’’ لوگ ایسے ہی کان کی طرح ہیں جیسے سونے اور چاندی کی کانیں ہوتی ہیں ۔ان میں سے جو جاہلیت میں اچھے لوگ تھے وہ اسلام میں بھی اچھے ہیں ‘اگر وہ دین کی سمجھ حاصل کریں ۔‘‘[1]
ایک طائفہ کا خیال ہے کہ ان اجناس کو ایک دوسرے پر فضیلت نہ دی جائے۔ یہ اہل کلام کی ایک جماعت کا قول ہے؛ جیسے قاضی ابوبکر بن الطیب ؛ اور دیگر حضرات۔اور قاضی ابو یعلی نے یہی قول المعتمد میں نقل کیا ہے۔ اور شعوبیہ کے مذہب میں بھی یہی قول ہے۔ یہ اہل بدعت کے اقوال میں سے ایک ضعیف قول ہے۔ جیسا کہ اپنی جگہ پر یہ مسئلہ تفصیل سے بیان ہوچکا ہے۔ اور ہم نے بیان کیا ہے مجمل کی مجمل پر تفضیل کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ فرد کو بھی فرد پر فضیلت حاصل ہو۔ جیسا کہ قرن اول کی قرن ثانی پر فضیلت ؛ اورقرن ثانی کی قرن ثالث پر فضیلت بھی اس کا تقاضا نہیں کرتی۔ بلکہ قرن ثالث میں بہت سارے ایسے لوگ ہیں جو کئی امور میں قرن ثانی کے بہت سارے لوگوں سے بہت بہتر ہیں ۔
بیشک علمائے کرام رحمہم اللہ کا اختلاف غیر صحابہ کے بارے میں ہے؛ ان میں سے کون ایک دوسرے سے بہتر ہے؟ اس میں دو قول ہیں ۔ اور اس میں کوئی شک نہیں حکم شریعت خصوصی طور پر قریش کے حق میں ثابت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حاکم ان میں سے ہوگا؛ دوسرے لوگوں میں سے نہیں ہوگا۔ اور بنی ہاشم کی یہ خصوصیت ثابت ہے کہ ان پر صدقہ حرام ہے۔ایسے ہی یہ لوگ اکثر علماء کے نزدیک مالِ فئے کے مستحق ہیں ۔ اور اس میں ان کے ساتھ بنو مطلب بھی شمار ہوتے ہیں ۔ پس ان پر درود کا تعلق اسی باب سے ہے۔ ان کے خاص احکام میں ہیں جن میں ان کے حقوق اور ان کے فرائض بیان ہیں ۔ یہ احکام ان میں سے ہر ایک کے لیے ثابت ہیں بھلے وہ نیک نہ بھی ہو؛ گنہگار اور بدکار بھی ہو۔
رہ گیا یہ معاملہ کہ اہل قرابت میں ثواب اور عقاب میں اسی ترتیب کو برقرار رکھنا؛ اور اللہ تعالیٰ کا کسی متعین شخص کی تعریف کرنا؛ اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا کرامت والا ہوں ؛ اس نسب پر مؤثر نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اس میں مؤثر ایمان اور عمل صالح ہوتا ہے؛ جو کہ تقوی سے آتا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
﴿ اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ﴾ (الحجرات۱۳]۔
’’ بیشک اللہ کے ہاں تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے ؛ وہ سب سے بڑا متقی ہو۔‘‘
صحیح بخاری میں یہ ثابت شدہ ہے؛ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا :
’’ یا رسول اللہ! سب سے زیادہ شریف کون ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا کہ:’’ ہم آپ سے اس کے متعلق نہیں پوچھتے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ پھر اللہ کے نبی یوسف بن نبی اللہ بن نبی اللہ بن خلیل اللہ [سب سے زیادہ شریف ہیں ]۔‘‘
[1] مسلم کتاب الفضائل ؛ باب : فضل نسب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ح: ۴۳۱۸۔ صحیح ابن حبان ؛ کتاب التاریخ ،ذکر اصطفاء اللہ جل و علا صفیہ ؛ ح: ۶۴۲۴۔