کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 649
دوسرا قول یہ ہے کہ : نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کی آل پر درودپڑھنا واجب ہے۔ یہ امام شافعی کا اور دوسری روایت کے مطابق امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا مذہب ہے۔ پھر اس روایت کی بنا پر مزید اختلاف ہے ؛ کیا یہ درود رکن ہے یا واجب ہے جو کہ بھول جانے کی صورت میں سجدہ کرنے سے ساقط ہوجاتا ہے؟ امام احمد رحمہ اللہ سے اس بارے میں دو روایتیں ہیں ۔ پھر جن لوگوں نے نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کی آل پر درودپڑھنا واجب قراردیا ہے ؛ وہ کہتے ہیں : یہ درود ان ہی الفاظ میں واجب ہے جو احادیث میں منقول ہیں ۔امام احمد کا ایک قول یہی ہے۔اس صورت میں آل محمد پر درود واجب ہوجاتا ہے ۔اور بعض علماء کرام رحمہم اللہ الفاظ کی قید کو واجب قرار نہیں دیتے۔ جیساکہ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کے مذہب میں بھی معروف ہے۔ اس صورت میں آل پر درود پڑھنا واجب نہ ہوگا۔ جب یہ معلوم ہوگیا کہ اس مسئلہ میں اختلاف بڑا مشہور ہے تو پھر کہا جائے گا کہ اگر نماز میں آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑہنا واجب بھی مان لیا جائے تو یہ درود تمام آل محمد کو شامل ہوگا؛ صرف ان کے صالحین یا ائمہ معصومین کے لیے خاص نہیں ہوگا [جیسا کہ رافضیوں کا خیال ہے ]۔ بلکہ یہ تمام لوگوں کو شامل ہوگا ۔ جیسا کہ اگر مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے اور اہل ایمان مردوں اور عورتوں کے لیے دعا کی جائے تو اس میں وہ تمام لوگ شامل ہوں گے جو ایمان یا اسلام میں داخل ہوئے ہیں ۔ عام اہل ایمان کے لیے یا عام اہل بیت کے لیے دعا کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان میں سے ہر ایک نیک اور متقی ہو۔ بلکہ دعا میں اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے فضل و احسان مانگا جاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہر ایک کے لیے طلب کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس میں آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حق زیادہ ہے ‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس امت پر کچھ حقوق ہیں جن میں دوسرے لوگ ان کے ساتھ شریک نہیں ہیں ۔آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ محبت و موالات کے مستحق ہیں ۔جس محبت کے سارے قریشی قبائل مستحق نہیں ۔ ایسے ہی قریش اس محبت کے مستحق ہیں جس کے باقی عرب قبائل مستحق نہیں ‘ اور عرب اس محبت کے مستحق ہیں جس کی مستحق باقی اولاد آدم نہیں ۔ یہ ان لوگوں کا مذہب جو عربوں کو باقی لوگوں پر فضیلت دیتے ہیں ؛ اور قریش کو سارے عربوں پر اور بنی ہاشم کو سارے قریش پر فضیلت دیتے ہیں ۔جیسا کہ امام احمد اور دوسرے ائمہ رحمہم اللہ کا مذہب ہے ۔ نصوص اس کی صحت پر دلالت کرتی ہیں جیسا کہ حدیث میں آتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفَی کَنَانَۃَ مِنْ وَلَدِ اسْمٰعِیْلَ، وَاصْطَفَی قُرَیْشاً مِّنْ کَنَانَۃَ ،وَاصْطَفَی مِنْ قُرَیْشٍ بَنِي ہَاشَمٍ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِيْ ہَاشَمٍ )) [1] ’’ بیشک اللہ تعالیٰ نے اسمعیل علیہ السلام کی اولاد سے کنانہ کو ، اور کنانہ کی اولاد سے قریش کو چن لیا تھا، اور قریش
[1] صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب (۱۲۶)، (حدیث:۷۹۷،۸۰۴،۴۵۶۰)، صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب استحباب القنوت فی جمیع الصلوات (حدیث: ۶۷۵، ۶۷۶)۔