کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 647
عبدمناف کو بھی ایک حصہ دیا تھا ؛ اورفر مایا تھا: ’’ بیشک بنو ہاشم اور بنو مطلب دونوں ایک ہی چیز ہیں ۔ یہ نہ ہی ہم سے جاہلیت میں جدا ہوئے اور نہ ہی اسلام میں ۔‘‘[1] یہ لوگ بنو عباس اور بنو حارث بن عبد المطلب کی نسبت دور کے رشتہ دار ہیں ۔لیکن اس کے باوجود ان تمام کا شمار ذو القربی [قریبی رشتہ داروں ] میں ہوتا ہے۔ اس بات پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ آل عباس اور بنو حارث بن عبد المطلب آل محمد اورذوی القربی میں شامل ہیں اور ان پر زکوٰۃ حرام ہے۔اور درود میں بھی یہ لوگ شامل ہوتے ہیں ۔ اور یہ لوگ خمس کے مستحق ہیں ۔ جب کہ بنو مطلب بن عبد مناف کے بارے میں اختلاف ہے ۔کیا ان پر بھی صدقہ حرام ہے ؟ اور کیا یہ بھی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہیں ؟ اس بارے میں دو قول ہیں ۔ امام احمد رحمہ اللہ سے بھی دو روایتیں منقول ہیں : ٭ پہلی روایت : ان پر صدقہ حرام ہے ۔ یہ قول امام شافعی رحمہ اللہ کا ہے۔ ٭ دوسری روایت:ان پر صدقہ حرام نہیں ہے۔یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کاقول ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک وہی لوگ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے بارے میں صریح حکم آیا ہے۔ یہی مسلک شریف ابو جعفر بن ابو موسی اور اس کے ساتھیوں کا ہے۔ جن پر صدقہ حرام ہے وہ بنو ہاشم ہیں ۔ بنو مطلب کے بارے میں دو روایتیں ہیں ۔ ایسے ہی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کے بارے میں اختلاف ہے ۔ کیا ان کاشمار بھی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوتا ہے جن پر صدقہ حرام ہے ؟ امام احمد رحمہ اللہ سے اس بارے میں دو روایتیں ہیں : ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کے عتقاء [آزاد کردہ غلام اور لونڈیاں ]جیسے کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا [ان] پر صدقہ باجماع مسلمین جائز ہے۔ اگرچہ بنی ہاشم کے موالین پر بھی صدقہ حرام ہے۔ بعض مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک آل محمد سے آپ کی امت مراد ہے۔ صوفیہ کا ایک گروہ اس سے اتقیاء امت مراد لیتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی بھی متعین شخص پر نماز میں درود بھیجنے کا حکم نہیں دیا۔ اگر انسان نماز میں بعض اہل بیت پر درود بھیجے اور بعض پر نہ بھیجے ؛ جیساکہ آل عباس پر درود بھیجے اور آل علی پر نہ بھیجے ؛ یا اس کے برعکس کرے ؛ تو ایسا انسان شریعت کی مخالفت کرنے والا ہوگا۔تو پھر باقی تمام آل محمد کو چھوڑ کر چندمتعین افراد پر کیسے درود بھیجا جاسکتا ہے ؟ جمہور فقہاء کا نقطہ نظریہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر صلوٰۃ بھیجنا نماز میں واجب نہیں ہے۔ جو لوگ درود بھیجنے کو واجب کہتے ہیں وہ صرف آپ پر درود کو کافی سمجھتے ہیں ‘ آل پر درود بھیجنا واجب نہیں ۔ اور اگرآپ کی آل پر صلوٰۃ بھیجنا نماز میں واجب بھی ہوتا تو بعض آل پر یا باقی لوگوں کوچھوڑ کر چندمتعین افراد پر اکتفا درست نہیں ۔بلکہ علماء کرام کا اختلاف یہ ہے کہ کیا کسی معین شخص کے حق میں درود بھیجنے یا دعا کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے [یا نہیں ہوتی]؟اس میں دو قول ہیں : اگرچہ اس کا یہی جواب صحیح ہے کہ اس سے نماز باطل نہیں ہوتی؛ لیکن اسے ائمہ کے ساتھ خاص طور پر واجب بھی نہیں
[1] علاوہ ازیں لا تعداد نادر کتب کے مسوّدات جن میں سے بعض کے نام بھی ہم کو معلوم نہیں دریائے دجلہ میں بہاد یے۔ [2] البخاری، کتاب احادیث الانبیاء باب(۱۰)، (ح:۳۳۶۹)، صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعد التشھد (ح:۴۰۷)۔سنن ابی داؤد۔ کتاب الصلاۃ۔ باب الصلاۃ علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعد التشھد (ح :۹۸۲)؛ یہاں پر ان الفاظ میں درود نقل کیا گیا ہے: ’’اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ وَ اَزْوَاجِہٖ اُمَّہَاتِ الْمُؤمِنِینَ وَ ذُرِیّٰـتِہٖ و اَہْلِ بَیْتِہٖ کَمَا صَلَّیْت عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔‘‘ ( و سندہ ضعیف)۔ علماء زیدیہ میں سے قاضی شوکانی نیل الاوطار میں اس حدیث پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ علماء کی ایک جماعت نے اس حدیث سے اس بات پر احتجاج کیا ہے کہ ’’ آل ‘‘ سے ازواج و اولاد مرا د ہے۔‘‘