کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 638
سے لوگ باہر نکلیں ۔‘‘ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آج میرے پاس اس کا خرچہ بھی موجود ہے اور مجھے لوگوں کا ڈر بھی نہیں ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابن زبیر نے حطیم میں سے پانچ ہاتھ جگہ بیت اللہ میں زیادہ کر دی یہاں تک کہ اس جگہ سے اس کی بنیاد ظاہر ہوئی حضرت ابراہیم علیہ السلام والی بنیاد؛ جسے لوگوں نے دیکھا۔ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس بنیاد پر دیوار کی تعمیر شروع کرادی اس طرح بیت اللہ لمبائی میں اٹھارہ ہاتھ ہوگیا۔ جب اس میں زیادتی کی تو اس کا طول کم معلوم ہونے لگا پھر اس کے طول میں دس ہاتھ زیادتی کی اور اس کے دو دروازے بنائے کہ ایک دروازہ سے داخل ہوں اور دوسرے دروازے سے باہر نکلا جائے۔ تو جب حضرت زبیر رضی اللہ عنہ شہید کر دئیے گئے تو حجاج نے جواباً عبدالملک بن مروان کو اس کی خبر دی اور لکھا کہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کعبہ کی جو تعمیر کی ہے وہ ان بنیادوں کے مطابق ہے جنہیں مکہ کے باعتماد لوگوں نے دیکھا ہے۔ تو عبدالملک نے جواباً حجاج کو لکھا کہ ہمیں حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے رد وبدل سے کوئی غرض نہیں انہوں نے طول میں جو اضافہ کیا ہے اسے رہنے دو؛ اور حطیم سے جو زائد جگہ بیت اللہ میں داخل کی ہے اسے واپس نکال دو اور اسے پہلی طرح دوبارہ بنا دو اور جو دروازہ انہوں نے کھولا ہے اسے بھی بند کر دو پھر حجاج نے بیت اللہ کو گرا کر دوبارہ پہلے کی طرح اسے بنا دیا۔‘‘[ صحیح مسلم: ج ۲:ح۷۵۲] عبداللہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :’’حارث بن عبداللہ عبدالملک بن مروان کے دور خلافت میں ان کے پاس وفد لے کر گئے تو عبدالملک کہنے لگے کہ میرا خیال ہے کہ ابوخبیب یعنی ابن زبیر رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنے بغیر روایت کرتے ہیں حارث کہنے لگے کہ نہیں بلکہ میں نے خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث سنی ہے عبدالملک کہنے لگا کہ تم نے جو سنا ہے اسے بیان کرو۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’ تیری قوم کے لوگوں نے بیت اللہ کی بنیادوں کو کم کو دیا ہے اور اگر تیری قوم کے لوگوں نے شرک کو نیا نیا نہ چھوڑا ہوتا تو جتنا انہوں نے اس میں سے چھوڑ دیا ہے میں اسے دوبارہ بنا دیتا ۔تو اگر میرے بعد تیری قوم اسے دوبارہ بنانے کا ارادہ کرے تو آؤ میں تمہیں دکھاؤں کہ انہوں نے اس کی تعمیر میں سے کیا چھوڑا ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو وہ جگہ دکھائی جو کہ تقربیا سات ہاتھ تھی۔‘‘ یہ عبداللہ بن عبید کی حدیث ہے۔[صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر ۷۵۳] اور اس پر ولید بن عطا نے یہ اضافہ کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:’’ میں بیت اللہ میں دو دروازے زمین کے ساتھ بنا دیتا ایک مشرق کی طرف اور ایک مغرب کی طرف۔ اور کیا تم جانتی ہو کہ تمہاری قوم کے لوگوں نے اس کے دروازے کو بلند کیوں کردیا تھا؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض
[1] البخاری ۲؍۱۴۶ ؛ کتاب الحج چباب فضل مکۃ و بنیانہا ؛ و مسلم ۲؍۹۶۸؛ کتاب الحج باب نقض الکعبۃ و بنائہا۔ و سنن النسائی ۵؍۱۶۹ ؛ کتاب مناسک الحج باب بناء الکعبۃ ۔