کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 637
پچھلی جانب بھی ایک دروازہ بنا دیتا۔‘‘[ صحیح بخاری:ج۱:ح:۱۵۲۲] اور ایک دوسری روایت میں آپ فرماتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تیری قوم کے لوگوں نے کفر نیا نیا چھوڑا نہ ہوتا تو میں کعبہ کے خزانے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتا؛ اور اس کا دروازہ زمین سے ملا دیتا ؛ اور حطیم کو اس میں شامل کردیتا ۔‘‘[1] اور امام مسلم رحمہ اللہ اپنی صحیح میں حضرت عطا سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ : ’’ یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جس وقت کہ شام والوں نے مکہ والوں سے جنگ کی اور بیت اللہ جل گیا اور اس کے نتیجے میں جو ہونا تھا وہ ہوگیا؛ تو حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے بیت اللہ کو اسی حال میں چھوڑ دیا تاکہ حج کے موسم میں لوگ آئیں حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ چاہتے تھے کہ وہ ان لوگوں کو شام والوں کے خلاف ابھاریں اور انہیں برانگیختہ کریں ۔ جب وہ لوگ واپس ہونے لگے تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :اے لوگو! مجھے کعبۃ اللہ کے بارے میں مشورہ دو میں اسے توڑ کر دوبارہ بناؤں یا اس کی مرمت وغیرہ کروا دوں ۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمانے لگے کہ میری یہ رائے ہے کہ اس کا جو حصہ خراب ہوگیا اس کو درست کروا لیا جائے باقی بیت اللہ کو اسی طرح رہنے دیا جائے جس طرح کہ لوگوں کے زمانہ میں تھا۔ اور انہی پتھروں کو باقی رہنے دو کہ جن پر لوگ اسلام لائے اور جن پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کیا گیا تو حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ: ’’ اگر تم میں سے کسی کا گھر جل جائے تو وہ خوش نہیں ہوگا جب تک کہ اسے نیا نہ بنالے تو اپنے رب کے گھر کو کیوں نہ بنایا جائے؟ میں تین مرتبہ استخارہ کروں گا۔ پھر اس کام پر پختہ عزم کروں گا جب انہوں نے تین مرتبہ استخارہ کرلیا ۔تو انہوں نے اسے توڑنے کا ارادہ کیا تو لوگوں کو خطرہ پیدا ہوا کہ جو آدمی سب سے پہلے بیت اللہ کو توڑنے کے لئے اس پر چڑھے گا تو اس پر آسمان سے کوئی چیز بلا نازل نہ ہوجائے تو ایک آدمی اس پر چڑھا اور اس نے اس میں سے ایک پتھر گرایا تو جب لوگوں نے اس پر دیکھا کہ کوئی تکلیف نہیں پہنچی تو سب لوگوں نے اسے مل کو توڑ ڈالا؛ یہاں تک کہ اسے زمین کے برابر کردیا۔ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے چند ستون کھڑے کر کے اس پر پر دے ڈال دئیے یہاں تک کہ اس کی دیواریں بلند ہوگئیں ۔ اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو فرماتے ہوئے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’ اگر لوگوں نے کفر کو نیا نیا چھوڑا نہ ہوتا اور میرے پاس اس کی تعمیر کا خرچہ بھی نہیں ہے اگر میں دوبارہ بناتا تو حطیم میں سے پانچ ہاتھ جگہ بیت اللہ میں داخل کر دیتا اور اس میں ایک دروازہ ایسا بناتا کہ جس
[1] یہ واقعہ تین سو سولہ ہجری میں پیش آیا ۔عین حج کے دنوں میں قرامطی شیعہ نے بیت اللہ پر اس وقت حملہ کردیا جب لوگ حج کا طواف کرر ہے تھے ۔ تاریخ میں ہے کہ انہوں نے بیت اللہ میں دس ہزار حجاج کرام کو قتل کیا ؛ اور حجر اسود نکال کر لے گئے ۔ جو کہ بائیس سال تک ان کے پاس رہا ۔ آخرکار تین سو اڑتیس ہجری میں ایک معاہدہ کے تحت حجرہ اسود واپس کیا ‘ مگر اسے توڑ دیا گیا تھا۔موجود حجر اسودمیں اس کوجوڑنے کے نشانات کا بغور دیکھنے سے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ۔ شیعہ کی جانب سے قتل حجاج اور پامالی حرمت کعبہ و حرم کا یہ پہلا واقعہ نہیں ؛ بلکہ اس قسم کے بیسوویں واقعات پیش آچکے ہیں ۔ اس کی تفصیل کتاب ’’ الحاد الخمینی في بلاد الحرمین ‘‘کے ترجمہ میں آرہی ہے۔ [دراوی جی ] [2] صحیح بخاری،کتاب الحج۔ باب فضل مکۃ و بنیانھا(حدیث:۱۵۸۶)، صحیح مسلم، کتاب الحج۔ باب نقض الکعبۃ و بنیانھا (حدیث:۴۰۲؍۱۳۳۳)۔