کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 636
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ لوگوں میں سب سے بڑے کافر قرامطی باطنی ہیں ۔ جنہوں نے حجاج کرام کو قتل کیا۔اور انہیں قتل کرکے بئر زمزم میں پھینک دیا ۔اور حجر اسود نکال کر لے گئے ۔ جو ایک عرصہ تک ان کے پاس رہا ۔ پھر واپس کردیا گیا۔[1]
اس طرح کے کچھ عبرت انگیز واقعات پیش آئے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے حجرہ اسود کو واپس کیا؛ حالانکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے بڑے کافر تھے۔ مگر اس کے باوجود ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ پر مسلط نہیں کیا ؛ بلکہ کعبہ ہمیشہ ہی قابل عزت اور عظمت والا رہا ہے ۔
جبکہ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ بنو امیہ اور بنو عباس کے مسلمان بادشاہ اور ان کے نوابین میں سے کسی ایک نے بھی کبھی بھی کعبہ کی اہانت کا ارادہ نہیں کیا۔ اور نہ ہی یزید کے نائب نے ایسا کیا ہے۔اور نہ ہی عبد الملک کے نائب حجاج بن یوسف نے ایسا کیااور نہ ہی کسی اور نے ۔ بلکہ تمام مسلمان کعبہ کا احترام و تعظیم بجالاتے تھے۔ ان لوگوں کا مقصود حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کرنا تھا۔ اور منجنیق سے پتھر ان پر برسائے گئے تھے بیت اللہ پر نہیں ۔یزید نے کعبہ منہدم نہیں کیا؛اور اسے جلانے کا قصد بھی نہیں کیا تھا۔اورنہ ہی یزید کایہ کام تھا اور نہ ہی اس کے کسی نواب کا۔اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کعبہ کو منہدم کرکے اسے از سر نو پہلے سے بہتر تعمیر کیا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا۔[2]
اس سے پہلے بات یہ ہوئی کہ ایک عورت کے ہاتھ سے ایک چنگاڑی اڑ کر کعبہ کے پردوں پر جا گری جس سے کعبہ کا غلاف جل گیااور کچھ پتھر بھی پھٹ گئے۔پھر اس کے بعد عبد الملک نے حجاج بن یوسف کو حکم دیا کہ کعبہ کو دوبارہ اسی طرح تعمیر کیا جائے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھا۔ سوائے اس کی بلندی کے ؛ اس کی بلندی کو یوں ہی چھوڑ دیا جائے۔ اس وقت سے لیکر آج تک کعبۃ اللہ ویسے ہی ہے ۔
یہ مسئلہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے۔ابن زبیر اور ان کے موافقین سلف صالحین کی رائے تھی کہ خانہ کعبہ کو دوبارہ اس طرح سے تعمیر کیا جائے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے اظہار کیا تھا؛ آپ نے فرمایا:
’’اگر تمہاری قوم سے جاہلیت کا زمانہ قریب نہ ہوتا تو میں خانہ کعبہ کو منہدم کردیتا اور اسے ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر کرتا۔بیشک جب تعمیر کعبہ کے وقت قریش کے پاس خرچہ کم پڑ گیا تو انہوں نے اسے کم کردیا اور اس کی
[1] ہو جائے تو تین شب و روز تک مدینہ کو اپنے لیے مباح سمجھو۔ اس میں جو مال ، اسلحہ یا خوراک ہو اس کا مالک لشکر ہوگا، تین شب و روز گزرنے کے بعد اس سے رک جاؤ، علی بن حسین زین العابدین کا ہرطرح خیال رکھو اور انھیں کوئی تکلیف نہ دو۔ انھوں نے بغاوت میں حصہ نہیں لیا۔ ان کا خط میرے پاس آچکا ہے۔‘‘ مسلم بن عقبہ بارہ ہزار جنگجو اشخاص کی معیت میں مدینہ پہنچا۔ یہ واقعہ حَرّہ واقم میں پیش آیا۔ مسلم نے ظلم و تعدی کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ اسی لیے اہل مدینہ اسے مُسرِف بن عقبہ کہا کرتے تھے۔ یہ ہے واقعہ حرہ کا پس منظر! جس کی تفصیل ہم نے دانستہ ایک شیعہ مورخ کی زبانی بیان کی ہے، یہ راوی و مورخ ابو مخنف ہے جو عبد الملک بن نوفل سے روایت کرتا ہے اور وہ بنو امیہ کے قاصد حبیب بن کرّہ سے نقل کرتا ہے۔(تاریخ طبری:۷؍۵۔۷)
رواہ احمد في مسندہ مرفوعاً وموقوفاً]مسند أحمد طبع المعارف ۶؍۶۵ ؛ رقم۴۰۷۱ ؛ وقال الشیخ أحمد شاکر : إسنادہ صحیح ؛ والحدیث في مجمع الزوائد ۷؍۷۰ ؛ وقال : رواہ أحمد و أبو یعلی والبزار ۔ ورجال أحمد رجال الصحیح۔ ونقلہ ابن کثیر في التفسیر ۵؍۷۱۔