کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 635
یہ بات غلط ہے کہ یزید نے تمام اشراف مدینہ کو قتل کروا دیا تھا۔ مقتولوں کی جو تعداد دس ہزار بتائی جاتی ہے یہ بھی درست نہیں ۔ اس بات میں بھی صداقت کا کوئی عنصر شامل نہیں کہ خون مسجد نبوی[روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ] تک پہنچ گیا تھا۔ خون ریزی شہر سے باہر ہوئی تھی، مسجد میں نہیں مگر اس کا کیا علاج کہ شیعہ دروغ گوئی کے خوگر ہیں اور اگر کوئی بات سچی بھی ہو تو وہ اس میں جھوٹ کی آمیزش کر لیتے ہیں ۔کعبہ کو اللہ تعالیٰ نے شرف و عظمت بخشی ہے ۔اور اسے حرم قرار دیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اسلام سے پہلے یا اسلام کے بعد کسی ایک کو بھی کعبہ کی بے حرمتی کرنے کی توفیق و قدرت نہیں دی۔ بلکہ جب ہاتھی والوں نے برائی کے ساتھ کعبہ کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں وہ سزا دی جو کہ مشہور و معروف ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحَٰبِ الْفِیْلِ oاَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَہُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍo وَّ اَرْسَلَ عَلَیْہِمْ طَیْرًا اَبَابِیْلَ oتَرْمِیْہِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ oفَجَعَلَہُمْ کَعَصْفٍ مَّاْکُولٍ ﴾ [ الفیل]
’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ ۔کیا ان کے مکر کو بیکار نہیں کر دیا اور ان پر پرندوں کے جھنڈ پر جھنڈ بھیج دیئے۔ جو ان کو مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے۔پس انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دیا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِیْ جَعَلْنٰہُ لِلنَّاسِ سَوَآئَ نِ الْعَاکِفُ فِیْہِ وَ الْبَادِوَ مَنْ یُّرِدْ فِیْہِ بِاِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ﴾ [الحج ۲۵]
’’جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکنے لگے اور اس حرمت والی مسجد سے بھی جسے ہم نے تمام لوگوں کے لئے مساوی کر دیا ہے وہیں کے رہنے والے ہوں یا باہر کے ہوں جو بھی ظلم کے ساتھ وہاں دین حق سے پھر جانے کا ارادہ کرے ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے ۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ اگر عدن کے آخری کونے پر کوئی انسان حرم میں الحاد کا ارادہ کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دردناک عذاب چکھائیں گے۔‘‘[1]
[1] اور فقیہ تھا۔(البدایہ والنہایۃ:۸؍۲۳۳)
مگر عبد اﷲ بن عمر اور امام ابن الحنفیہ کی شہادت حق فتنہ پردازی کے شور وشغب میں دب کر رہ گئی۔ مدینہ کی فضا اشاعت و دعایت کے شوروغل سے مسموم ہو گئی اور وہاں کے حکماء و علماء اور صلحاء جاہل اور شر پسند عوام کے سامنے کچھ حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اہل ہوی کا مقصد وحید فتنہ پردازی اور شرپسندی تھا۔ اندریں حالات یزید نے سخت غلطی یہ کی کہ امراء مدینہ کو یکے بعد دیگرے معزول کرتا چلا گیا ۔ چنانچہ عمر بن سعید بن العاص کو معزول کرکے اس کی جگہ ولید بن عتبہ کو مقرر کیا۔ پھر عبد اﷲ بن زبیر کی تدبیر سے متاثر ہو کر ولید کو معزول کرکے عثمان بن محمد بن ابی سفیان کو والی مدینہ مقرر کیا حالانکہ وہ اس منصب کے لیے موزوں نہ تھا۔ اسی دوران نعمان بن بشیر انصاری جو خود صحابی اور صحابی زادہ تھے ملک شام سے مدینہ پہنچے یہ اوّلین نومودلود تھے جو اسلام کے بعد انصار کے ہاں پیدا ہوئے، یہ دمشق کے قاضی اور بہترین خطیب تھے۔ مدینہ پہنچ کر انھوں نے انصار کو اطاعت امیر اور لزوم جماعت کی تلقین کی اور فتنہ بازی سے یہ کہہ کر ڈرایا کہ تم اہل شام کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ یزید نے ان کو فتنہ کے فرو کرنے کے لیے شام سے روانہ کیا تھا۔ عبد اﷲ بن مطیع نے نعمان بن بشیر کو مخاطب کرکے کہا :’’ نعمان! تم کس لیے ہماری شیرازہ بندی کو منتشر کرکے ہم میں فساد پیدا کر رہے ہو؟‘‘
یہ عجیب بات ہے کہ فتنہ پردازوں نے فتنہ کا نام اصلاح اور اس سے روکنے کا نام فساد مقرر کر رکھا تھا۔ یہ سن کر نعمان نے ابن مطیع کو جواباً کہا:’’ جس بات کی طرف آپ دعوت دے رہے ہیں اگر وہ پوری ہو گئی تو آپ دیکھیں گے کہ مدینہ میں خون کی ندیاں بہہ رہی ہونگی اور لوگ شمشیر بکف بے دریغ ایک دوسرے کو موت کے گھاٹ اتا ررہے ہونگے؛ آپ خچر پر سوار ہو کر عازم مکہ ہوں گے اور یہ انصار غریب شہر کی گلیوں ، مسجدوں اور اپنے گھروں کے دروازہ پر مقتول پڑے ہوں گے۔(تاریخ طبری:۷؍۴،۵، مطبع حسینیہ)۔شیعہ کا مشہور راوی اور مؤرخ ابو مخنف لوط بن یحییٰ کہتا ہے :’’ لوگوں نے نعمان کی بات نہ مانی ؛تو پھر جس طرح انھوں نے کہا تھا اسی طرح ہوا۔‘‘ نعمان بن بشیر کے نصائح کو ٹھکرانے کے بعد اہل مدینہ نے والی مدینہ عثمان بن محمد بن ابو سفیان کو نکال دیا۔ا علانیہ یزید کی بیعت توڑ ڈالی اور مدینہ میں جس قدر بنو امیہ اور ان کے ہم خیال قریش موجود تھے سب کا محاصرہ کرلیا۔ ان کی تعداد تقریباً ایک ہزار تھی اور یہ سب مروان کے گھر میں جمع ہو گئے تھے، بنو امیہ نے یزید کے نام ایک خط لکھا۔ عبد الملک بن مروان یہ خط لے کر نکلا۔ حبیب بن کرہ بھی اس کے ہمراہ تھا۔ حبیب کا بیان ہے کہ عبد الملک نے یہ خط دے کر اسے کہا: میں تجھے چوبیس دن کی مہلت دیتا ہوں ، بارہ دن جانے کیلئے اور بارہ دن واپسی کے لیے چوبیس رات میں اسی جگہ بیٹھ کر تمہارا انتظار کروں گا۔‘‘
حبیب کا بیان ہے کہ وہ یزید کے یہاں آیا۔ یزید ایک بیماری کی وجہ سے اپنے پاؤں پانی سے لبریز ایک طشتری میں رکھے ایک کرسی پر بیٹھا تھا۔ یزید نقرس کے مرض میں مبتلا تھا۔ میں نے خط پیش کیا یزید نے خط پڑھ کر استشہاد کے طور پر یہ شعر پڑھا:
لَقَدْ بَدَّلُوا الْحِلْمَ الَّذِیْ مِنْ سَجِیَّتِیْ فَبَدَّلْتُ قَوْمِیْ غِلْظَۃً بِلَیَانٖ
’’ علم و تحمل جو میری فطرت میں داخل تھا۔ لوگوں نے اسے بدل دیا اور میں نے اپنی قوم کے لیے اپنی نرمی کو سختی میں تبدیل کردیا۔‘‘
یزید نے اپنے ایک فوجی سپہ سالار مسلم بن عقبہ المری کو بلایا۔ مسلم بن عقبہ بڑا معمر، کمزور اور بیمار تھا، یزید نے اسے مدینہ جانے کا حکم دیا اور کہا تین شب و روز اہل مدینہ کو صلح کی دعوت دو،اگر وہ قبول کرلیں تو بہتر ورنہ ان سے جنگ کیجیے۔ جب اہل مدینہ پر غلبہ حاصل (