کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 634
دیا یہ بھی کہاکہ اگر وہ باز نہ آئیں تو ان سے جنگ آزما ہو؛ اورتین دن تک مدینہ کو پامال کرے۔ یہی وہ بات ہے جس پر لوگوں نے یزیدکے اس فعل کا انکار کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیاکہ : کیا یزید سے حدیث روایت کی جاسکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ‘ اس کی کوئی کرامت نہیں ‘ یا یہ فرمایا : کیا یزید وہی نہیں ہے جس نے اہل مدینہ کے ساتھ کیا نہیں کیا ؟‘‘
[1]
[1] یہ واقعہ ابن رجب حنبلی نے ’’الذیل فی طبقات الحنابلہ ۱؍۳۵۶ میں عبدالمغیث الحربی کے سوانح میں ذکر کیا ہے ۔ اور جس کتاب کی طرف ابن تیمیہ نے اشارہ کیا ہے ؛جو ابن جوزی نے عبدالمغیث کے رد میں لکھی ہے؛ اس کا نام ہے:’’ الرد علی المتعصب العنید المانع من ذم یزید۔‘‘مزید دیکھیں : شذرات الذہب ۴؍۲۷۵ ؛ البدایہ و النہایہ ۱۲؍ ۳۲۸۔ امام ابن کثیر لکھتے ہیں : ’’اس کی ایک کتاب یزید کے فضائل کے بارے میں ہے؛ جس میں اس نے بڑی عجیب و غریب باتیں لکھی ہیں ۔
[2] یزید بن معاویہ کے ایام خلافت ۶۳ ہجری میں حرہ واقم میں یہ مشہور واقعہ پیش آیا تھا۔
[3] قاری اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے متعدد داعی مدینہ میں موجود تھے، ان کے سرخیل عبداﷲ بن مطیع العدوی تھے۔ یہ داعی یزید پر طرح طرح کے بہتان لگا کر لوگوں کو اس کے خلاف بھڑکاتے رہتے تھے۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ابن مطیع کو راہ راست پر لانے کی بہت کوشش کی اور اسے سمجھایا کہ یزید کی بیعت توڑنا کوئی اچھا کام نہیں ہے بلکہ یہ عظیم غدر اور بے وفائی ہے۔ (البخاری کتاب الفتن۔ باب اذا قال عند قوم شیئاً ثم و خرج(ح:۷۱۱۱)، صحیح مسلم۔ کتاب الامارۃ ، باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین (ح:۱۸۵۱)
شہادت حق اور بندوں کی خیر خواہی کے اعتبار سے امام ابن الحنفیہ کا موقف بھی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے نقطۂ نظر سے کم نہیں ہے، جنھوں نے شیعی اکاذیب کی تردید کرتے ہوئے یہ سچی شہادت دی کہ آپ یزید کے ہاں اقامت گزیں رہ کر اچھی طرح اس کی سیرت و اخلاق کا بچشم خود ملاحظہ کر چکے ہیں ۔ آپ اس بات کے چشم دید گواہ ہیں کہ یزید پابند نماز، اعمال خیر کا حریص، متبع سنت (