کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 603
بھلائی کا حکم دے؛ اور برائی سے منع کرے؛ اس معاملہ میں اس کی مدد کی جائے گی۔ جب تک کہ اس میں کوئی خرابی راجح نہ ہو۔ اوریہ کہ بیشک جمعہ اورجماعت کا قیام بہت ضروری ہے۔اگر اس کے لیے کسی نیک انسان کو امام مقرر کرنا ممکن ہو تو پھر کسی ایسے بدعتی کو امام بنانا جائز نہیں جو اپنی بدعات کااظہار کرتا ہو۔ کیونکہ ایسے لوگوں پر حسب استطاعت انکار واجب ہوتا ہے؛ تو پھر ان کو ولایت تفویض کرنا جائز نہیں رہتا۔ اور اگر صرف یہی ممکن ہو کہ دو اہل بدعت و فجور میں سے کسی ایک کو ولایت تفویض کرنا ہو؛ تو پھر ان میں سے ایسے آدمی کو والی بنایا جائے جو اس واجب کی ادائیگی کے لیے زیادہ مناسب ہو۔ ایسے ہی جب غزوات میں دو آدمیوں میں سے کسی ایک کو امیر بنایا جانا ہو؛ ان میں سے ایک دیندار ہو مگر جہادی اعتبار سے کمزور ہو؛ اور دوسرے کے گناہوں کے باوجود وہ جہاد کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو؛ تو اسے ولایت تفویض کی جائے جس کی امارت و ولایت مسلمانوں کے لیے زیادہ نفع بخش ہو۔ وہ اس آدمی سے زیادہ بہتر ہے جس کی ولایت سے مسلمانوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔اور جب نماز جمعہ کی ادائیگی اور باجماعت نماز کا قیام صرف فاجر اور بدعتی کے پیچھے ہی ممکن ہو؛ تو اس کے پیچھے نماز پڑھی جائے گا؛ اور اس کااعادہ نہیں ہوگا۔ اور اگر اس کے علاوہ کسی اور کے پیچھے نماز پڑھنا ممکن ہو تو پھر اس کے پیچھے نماز ترک کرنے میں اس سے قطع تعلقی ہے؛تاکہ یہ اور اس کے امثال و ہمنوا اپنی بدعات اورفجور سے باز آجائیں ؛ تو پھر ضرور ایسا کرنا چاہیے۔ اور اگران کے پیچھے نماز ترک کرنے میں کوئی دینی مصلحت نہ ہو تو پھر ان کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے گی۔ اور کسی پر بھی ایک نماز کا دو بار پڑھنا فرض نہیں ہوتا۔
خلاصہ کلام ! جہاں تک ممکن ہوسکے اہل سنت و الجماعت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کی کوشش کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان بھی یہی ہے:
﴿فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ [تغابن ۱۶]
’’تم سے جتنا ہوسکے اللہ سے ڈرو۔‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:
’’جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دو ں تو جتنا ہوسکے اسے پورا کرو۔‘‘[سبق تخریجہ ]
وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بندوں کی معاش اور معاد کی اصلاح کے لیے مبعوث فرمایا تھا۔ اور بیشک آپ نے اصلاح کا حکم دیا ہے ؛ اورفساد سے منع کیا ہے۔پس جس کسی فعل میں صلاح اور فساد دونوں پہلو موجود ہوں تو وہ اس میں سے راجح کو ترجیح دیتے ہیں ۔ پس جب اس میں صلاح کا پہلو فساد پر غالب ہو تو وہ اس کے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اور اگر فساد کا پہلو صلاح پر غالب ہو تو اس کے ترک کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔
بلاشک و شبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مصلحتوں کی تکمیل ان کے حصول اورمفاسد کے خاتمہ اور ان کے انسداد کے لیے مبعوث فرمایا تھا۔پس جب کوئی خلیفہ خلافت پر فائز ہوتا ہے ؛ جیسے یزید اور عبدالملک اور منصور ؛ اور ان کے علاوہ دیگر؛ توپھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ: یاو اسے ولایت پر فائز ہونے سے روکا جائے اور اس سے جنگ کی جائے حتی کہ کوئی
[1] اﷲ کا شکر ہے کہ امت محمدیہ تاہنوز بخیر و عافیت ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ امت کے اوّلین ولاۃ و حکام غیر معصوم ہونے کے باوجود صلاح و استقامت کے انتہائی بلند معیار پر فائز تھے اقوام عالم میں جو لوگ مرتبہ و مقام کے لحاظ سے فروتر ہیں وہ ان کو وقعت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کے کارہائے نمایاں کو اجاگر کرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ ان کی لغزشوں کا ذکر نہایت نرم الفاظ میں کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے لیے مناسب عذر تلاش کیا جاتا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ دورِ حاضر کے بعض شریر ہمارے بعض نیک نہاد سلاطین و ملوک کی سیرت و سوانح کو بگاڑنے پر تلے ہوئے ہیں اور ان کے کارہائے نمایاں کو چھپاتے اور ان کی تاویلیں کرتے اور ان سے صادر شدہ لغزشوں کو رائی کا پہاڑ بنا کر دکھا رہے ہیں ، وہ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ وہ ان ولاۃ و حکام کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں حالانکہ اس کا سب سے بڑا نقصان ملت اسلامیہ کو پہنچتا ہے اور وہ یہ کہ اس سے ملت کے اذہان و قلوب میں مایوسی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور وہ اپنے ماضی سے بد دل ہو جاتی ہے۔حق کے پرستار و مددگار اہل سنت مثلاً امام بخاری و مسلم اور دیگر حفاظ حدیث کا معاملہ اس سے یک سر مختلف ہے، صداقت شعار راویان حدیث کی جمع و تدوین میں انھوں نے حد درجہ اعتدال سے کام لیا۔ خلفائے راشدین کے بعد آنے والے ولاۃ و حکام کے اخبار و واقعات جمع کرنے میں مؤرخین غالباً یہ نظریہ رکھتے تھے کہ تقابل کے نقطہ نظر سے وہ حکام خلفائے راشدین کے ہم پلہ نہیں ہو سکتے، اس لیے انھوں نے ان کے بعض ایسے حقوق ادا کرنے میں فیاضی سے کام لیا جو بذات خود عظیم مگر خلفائے راشدین کے مقابلہ میں فروتر درجہ کے تھے۔ بہر کیف اہل سنت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ما سوا کسی کو معصوم قرار نہیں دیتے اور ہر مستحق کو اس کا حق دینا چاہتے ہیں ۔ دورِ حاضر میں جب ہم از سرِ نو تاریخ اسلام کا جائزہ لے کر اسے کذب و دروغ سے پاک و صاف کرنے کا بیڑا اٹھائیں گے تو ہمیں ان اسباب نصرت و توفیق تک رسائی حاصل ہو گی جو اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے مقدر کر رکھے تھے جنھوں نے عالم اسلام کی بنیاد رکھی اور اﷲ کی دعوت کواکناف ارضی تک پہنچایا اس وقت یہ حقیقت ابھر کر سامنے آئے گی کہ باطل پرستوں نے جن لوگوں کی زندگی کو داغ دار کرنے کی سعی کی ہے وہ تاریخ اسلام کے عظیم ہیرو اور اپنے عصر و عہد کے چشم و چراغ تھے۔( رضی اللہ عنہم )۔