کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 601
ماوراء النہر کے علاقے فتح ہوئے ۔ انہیں قتیبہ بن مسلم نے فتح کیا ؛ جو کہ حجاج بن یوسف کا نائب تھا۔ حجاج بلاد عراق پر عبد الملک کا نائب تھا۔ ان میں ظلم و ستم ہونے کے باوجود [ان کے دور میں ] مسلمانوں نے ترک بادشاہ خاقان سے جنگ لڑی ؛ خاقان کوشکست دیکراسے اس کی اولاد سمیت قید کرلیا۔ نیز اسی کی حکومت میں بلاد سندھ فتح ہوئے۔ بلاد اندلس پر غلبہ حاصل کیا ۔ قسطنطنیہ پر غزوہ کیا۔ اور ایک مدت تک اس کا محاصرہ کیے رکھا۔ موسم گرما وسرما میں جہاد کو جاری رکھا۔
پھر جب حکومت بنو عباس کے پاس چلی گئی تو بلاد عراق‘ شام ؛ مصر ؛ خراسان ؛ حجاز ؛ یمن؛ اوردیگر جن علاقوں پر بنو امیہ کی حکومت تھی ؛ وہاں پر بنو عباس حاکم بن گئے سوائے بلاد مغرب کے۔ بنو امیہ نے بلادمغرب [اندلس ] پر اپنی حکومت قائم کرلی ۔ اور بلاد قیروان کی حکومت ان دونوں کے درمیان میں تھی۔
یزید اپنے عہد ولایت میں مسلمان بادشاہوں میں سے ایک تھا ؛ جسے اللہ تعالیٰ نے زمین پر حکومت دی تھی۔ لیکن جب یزید کا انتقال ہوا تومکہ میں حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے اس کی بیعت سے خارج تھے ۔ یزید بھی تمام بلاد اسلامیہ پر حاکم نہیں بن سکا جیسے بنو عباس تمام اسلامی ممالک کے حاکم نہ بن سکے۔ بخلاف عبد الملک اور اس کی اولاد کے ؛ انہیں تمام بلاد ِ اسلامیہ پر حاکم بننے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ ایسے ہی خلفاء ثلاثہ اور حضرت امیر معاویہ تمام اسلامی شہروں کے حاکم تھے۔ لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ تمام اسلامی شہروں پر حاکم نہ بن سکے۔
ان لوگوں کے امام ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ حکومت و سلطنت اور سیف و سنان سے بہرہ ور تھے کسی کو حاکم مقرر کرتے اور کسی کو معزول کرتے۔ کسی کو دیتے اور کسی کو نہ دیتے۔ ان کے احکام حدود سلطنت میں نافذ ہوتے تھے۔ وہ شرعی سزائیں دیتے، کفار سے جہاد کرتے اور لوگوں میں مال تقسیم کیا کرتے تھے۔یہ سب باتیں متواتر کی حد تک معروف ہیں اور ان سے مجال انکار نہیں ۔ ان کے امام خلیفہ یا سلطان ہونے کا یہی مطلب ہے، جیسے امام صلوٰۃ وہ ہے جو لوگوں کو نماز پڑھاتا ہو جب ہم دیکھیں کہ کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھا رہا ہے تو اس کا امام ہونا ایک مشہود و محسوس امر ہے جس میں جدل و بحث کی کوئی گنجائش نہیں ۔ باقی رہا اس کا نیک یا بد ہونا؛ نافرمان یا تابع فرمان ہونا تو یہ ایک الگ بات ہے۔
اہل سنت سلاطین و خلفاء مثلاً یزید یا عبد الملک یا منصور میں سے جب کسی کو امام تصور کریں گے تو اس کی یہی حیثیت ہو گی۔ جوشخص اس میں جدل یا بحث سے کام لیتاہے وہ اسی طرح ہے جیسے کوئی حضرت ابوبکر وعمر و عثمان رضی اللہ عنہم کی ولایت یا قیصر و کسریٰ اور نجاشی کی بادشاہت کو تسلیم نہ کرے اور اس میں جھگڑنے لگے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیایہ ائمہ و خلفاء معصوم تھے؟ یا سب باتوں میں عدل و انصاف کے تقاضوں پر عمل پیرا تھے ؟ اور سب افعال و امور میں اﷲتعالیٰ کے اطاعت کیش تھے؟ تو کوئی مسلمان یہ عقیدہ نہیں رکھتا۔ایسے ہی ان کے ہر حکم کے واجب الاطاعت ہونے کا عقیدہ کوئی بھی مسلمان عالم نہیں رکھتا ؛ اگران کا حکم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر ہو۔
تاہم اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعات و عبادات اورجن چیزوں میں ان کی مددکی ضرورت ہوتی ہے‘ ان میں ان کے ساتھ شرکت کر سکتے ہیں ۔ چنانچہ ہم ان کی اقتداء میں جمعہ و عیدین اور دیگر نمازیں پڑھ سکتے ہیں ، اس
[1] جس کے پھلنے پھولنے اور وسعت پذیر ہونے میں دعوت اسلامی کی توسیع کا راز مضمر تھا۔ یہ توسیع زیادہ تر حضرت معاویہ و عثمان رضی اللہ عنہما اور ان کے خلفاء کے عہد میں ہوئی، نظر بریں اس بات کی شدید ضرورت تھی کہ عرب کے دونوں بازو یعنی یمن و مضر یا قحطان و عدنان میں کامل اتحاد و یگانگت پیدا ہو جائے۔ یزید کوولی عہد نامزد کرنے سے پیشتر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ یزید کو امور سلطنت سکھایا کرتے تھے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آپ نے ۴۹ ہجری میں یزید کو رومی سلطنت کے استقبال کے لیے روم بھیجا اوراسلام کے جھنڈے قسطنطنیہ کی دیواروں پر لہرانے لگے۔ یہ وہ بابرکت لشکر تھا جس میں حضرت عبد اﷲ بن عمر، عبد اﷲ بن عباس، ابوایوب انصاری اور عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ شریک تھے۔ اس عظیم اسلامی جہاد کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے خواب کی تعبیر ظاہر کی جو آپ نے بمقام قباء حضرت انس رضی اللہ عنہ کی خالہ کے یہاں دیکھا تھا۔(صحیح بخاری، کتاب الاستئذان۔ باب من زار قوماً فقال عندھم (حدیث: ۶۲۸۲، ۶۲۸۳)،صحیح مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب فضل الغزو فی البحر(حدیث:۱۹۱۲)
اگر ان تاریخی حقائق پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لخت جگر ابن الحنفیہ کی شہادت کا بھی اضافہ کر لیا جائے جس میں انھوں نے یزید پر عائد کردہ اتہامات کو بے بنیاد قرار دیا تھا تو اس مظلوم قریشی نوجوان(یزید) کی اصلی صورت سامنے آجاتی ہے جو اس پر ازخیر وبرکت زمانہ سے بالکل ہم آہنگ تھی جس کے ائمہ میں سے یزید بھی ایک امام تھا۔ علاوہ ازیں اس سے تاریخ اسلام کے وہ داغ دھبے دور ہو جائیں گے جن سے شریر لوگ اس کو داغ دار کرنا چاہتے ہیں ۔
اگر اس کتاب کے دامن میں مزید وسعت ہوتی تو ہم بہت سے تاریخی حقائق بیان کرتے۔ (بعض حقائق کے لیے دیکھیے ہمارے حواشی بر العواصم من القواصم) اگر زندگی نے مہلت دی تو میں اسلام کے اس قرض کو جس سے میری گردن زیر بار ہے صدر اسلام کی ایک ایسی تاریخ پیش کرکے ادا کروں گا جن کو دیکھ کر مسلم نوجوان عش عش کر اٹھیں اور مسلمانوں پر یہ راز آشکار ہو جائے گاکہ اموی دور میں اسلام یورپ اور افریقہ میں کیوں کر اشاعت پذیر ہوا تھا۔ ایسی تاریخ امت مسلمہ کی ایک اہم ضرورت ہے اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے کچھ بعید نہیں کہ وہ ایسے شخص کو اس خدمت کی توفیق ارزانی کرے جو بہمہ وجوہ اس کا حق ادا کرنے کے قابل ہو۔