کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 600
جب کہ یزید کی زندگی میں پہلے آپ اس کی بیعت کرنے سے گریزاں رہے ؛ پھر بیعت کرلی مگر یزید اس پر راضی نہ ہوا اس کا اصرار تھا کہ آپ کو قید کرکے اس کے پاس پیش کیا جائے۔ اسی وجہ سے ان کے مابین فتنہ پیدا ہوا۔ یزید نے آپ کی طرف ایک لشکر روانہ کیا ؛ جس نے مکہ میں آپ کا محاصرہ کرلیا۔ آپ محصور ہی تھے کہ یزید کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد اہل شام کے ایک گروہ او راہل عراق وغیرہ نے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلی۔ادھر یزید کے بعد اس کا بیٹا معاویہ تخت نشین ہوا ۔ اس میں کچھ خیر او راصلاح کا پہلو موجود تھا ؛ مگر زندگی نے اسے زیادہ موقع نہ دیا۔ یہ صرف چالیس دن تک حاکم رہا ؛ مگر اپنے بعد کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا۔ اس کے بعدمروان بن الحکم شام کا امیر بن گیا۔اسے بھی زیادہ مہلت نہ ملی۔ پھر اس کے بعد اس کا بیٹا عبد الملک بن مروان شام کا امیر بن گیا۔اس نے حضرت مصعب بن زبیر حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے بھائی اور نائب سے لڑنے کے لیے ایک لشکر عراق روانہ کیا ۔ مصعب بن زبیر قتل ہوگئے‘ اور عراق کی حاکمیت عبدالملک کے پاس چلی گئی ۔ ایک لشکر حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی طرف روانہ کیا ؛ جس نے مکہ میں آپ کا محاصرہ کرلیا۔ ان میں جنگ ہوئی ۔یہاں تک کہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شہید کردیے گئے۔اور نظام حکومت مکمل طور پر عبد الملک بن مروان کے ہاتھوں چلا گیا۔ پھر اس کی اولاد میں بھی حکومت مستحکم رہی ۔ اسی کی حکومت میں بخاریٰ اور [1]
[1] جائے گا۔‘‘’’ہم اﷲ و رسول کے حکم کے مطابق یزید کی بیعت کر چکے ہیں اور میرے نزدیک اس سے بڑا دھوکا اور کچھ نہیں کہ حکم الٰہی کے مطابق ایک شخص کی بیعت کی جائے پھر اس کے خلاف جنگ کا آغاز کیا جائے۔ مجھے جس شخص کے بارے میں معلوم ہوا کہ اس نے یزید کی بیعت ترک کرکے کسی اور کی بیعت کر لی ہے میں اس سے باز پرس کروں گا۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب الفتن۔ باب اذا قال عند قوم شیئاٍ ثم خرج....‘‘(حدیث:۷۱۱۱) حافظ ابن کثیر ’’البدایہ والنہایۃ‘‘ (۸؍۲۲۸) میں امام مدائنی رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما ، حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف لائے، اسی دوران یزید تعزیت کے لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جب یزید چلا گیا تو ابن عباس نے کہا: جب بنو امیہ رخصت ہو جائیں گے تو اہل علم کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔(البدایۃ والنہایۃ:۸؍۲۲۸) یہ وہ امور ہیں جو یزید کی صلاحیت امامت، صحابہ کے اس کو تسلیم کرنے اور ابن حنفیہ کی یزید کے حق میں تائید و شہادت سے متعلق ہیں ۔ ابن حنفیہ نے تصریحاً کہہ دیا کہ یزید کے بارے میں دھوکہ بازوں نے جو کچھ کہا تھا وہ صاف جھوٹ ہے۔ یہ بات ہنوز محتاج غوروفکر ہے کہ حضرت معاویہ نے یزید کو خلیفہ کیوں مقرر کیا جب قریش کے متعدد نوجوان جو یزید کے معاصر تھے اپنی بعض خصوصیات کی بنا پر اپنے آپ کو خلافت کا اہل سمجھتے تھے۔ مثلاً سعید بن عثمان بن عفان بلکہ ان سے فروتر درجہ کے لوگ بھی اس منصب کو سنبھالنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ شوریٰ کے ذریعے خلیفہ کا انتخاب ولی عہد نامزد کرنے سے بلاشبہ اولیٰ وافضل ہے۔ مگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ اگر اس وقت شورٰی کے ذریعہ خلیفہ منتخب کرنے کا سوال اٹھایا گیا تو امت میں خون ریزی کا ایسا دروازہ کھلے گا جو اسی وقت بند ہو گا جب قریش میں ولایت و خلافت کی اہلیت رکھنے والے سب لوگ صفحہ ارضی سے نابود ہو جائیں گے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر یہ بات پوشیدہ نہ تھی کہ فضائل و مناقب اور خصوصیات ان مدعیان خلافت کے مابین تقسیم شدہ ہیں ۔ اگر ایک شخص ایک خصوصیت رکھتا ہے تو دوسرا کسی اور وصف کا حامل ہے جو اس میں موجود نہیں ۔ جہاں تک یزید کا تعلق ہے وہ اپنے معاصر مدعیان امارت و ولایت کے اوصاف و خصوصیات میں برابر کا سہیم وشریک تھا۔ البتہ حکومت و سلطنت کی ایک لابدی خصوصیت یزید میں ایسی تھی جس سے دوسرے یک سر محروم تھے۔ اور وہ یہ ہے کہ یزید عسکری قوت سے بہرہ ور تھا جو بوقت ضرورت اسلام کی ایک عظیم قوت ثابت ہو سکتی تھی اور اگر یزید خلافت میں مزاحمت کرنے والوں کے خلاف نبرد آزما ہوتا تو یہ قوت وہاں بھی اس کا ساتھ دے سکتی تھی۔ علاوہ ازیں اگر یزید کے ننھال قبیلہ قضاعہ اور اس کے حلیف یمنی قبائل کے سوا اس کا کوئی بھی مددگار نہ ہوتا توبھی وہ اپنے سب مخالفین کو زیر کر سکتا تھا۔ اس موقع پر ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں حضرت حسین کے سفر عراق کا حال بیان کرتے ہوئے جو کچھ لکھا ہے وہ قابل ملاحظہ ہے۔ ابن خلدون مقدمہ تاریخ کی فصل ’’ ولایۃ العہد‘‘ میں لکھتا ہے:’’ قوت و شوکت کا اندازہ لگانے میں حضرت حسین سے غلطی سرزد ہوئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مضر کی عصبیت ان دنوں قبیلہ قریش میں محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ قریش کی عصبیت عبد مناف میں اور عبد مناف کی حمایت و طرف داری بنو امیہ میں آکر گھر گئی تھی۔ سب قریش اس حقیقت کا اعتراف کرتے تھے اور کسی کو اس سے مجال انکار نہ تھی۔ آغاز اسلام میں جب لوگ معجزات اور وحی الٰہی میں منہمک ہو گئے تو یہ جاہلی عصبیت فراموش ہو گئی تھی۔ نبوت اور خوارق و معجزات کا انقطاع ہونے کے ساتھ ہی یہ عصبیت لوٹ کر آگئی اور قبیلہ مضر کے لوگ باقی لوگوں کو چھوڑ کر بنو امیہ کا ساتھ دینے لگے۔‘‘ (مقدمہ ابن خلدون) یزید کی نامزدگی میں حضرت معاویہ نے اسلامی شہنشاہیت کی مصلحتوں کو پیش نظر رکھا تھا جس کا ان دنوں بڑا چرچاتھا اور (