کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 599
کے مابین جو کچھ واقعات پیش آئے ؛ اور اہل مکہ اور حجاز میں سے جن لوگوں نے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا۔ آپ کا ظہور یزید کی موت کے بعد ہوا ؛ جب آپ نے خلافت کی طلب شروع کی ۔ اس وقت آپ امیر المؤمنین کہلانے لگے۔ اہل شام کے علاوہ باقی لوگوں نے آپ کی بیعت کرلی ۔ اسی لیے آپ کی ولایت کو یزید کی موت کے بعد سے شمار کیا جاتاہے۔ [1]
[1] ’’تم یزید کے بارے میں جن باتوں کا ذکر کرتے ہو وہ میں نے اس میں نہیں دیکھیں ۔ حالانکہ میں نے اس کے یہاں قیام کیا تھا۔ دوران قیام میں نے دیکھا کہ یزید پابندی سے ہمیشہ نماز ادا کرتا۔ نیک اعمال میں پوری دلچسپی لیتا اور فقہی مسائل کا جواب دیتا، اس کے ساتھ ساتھ وہ سنت نبوی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔‘‘ لوگوں نے کہا:’’یزید آپ کو دکھانے کے لیے یہ اعمال انجام دیتا تھا۔‘‘ یہ سن کر امام ابن الحنفیہ نے فرمایا: ’’یزید کو مجھ سے کس بات کا خوف یا لالچ تھا کہ اس نے تصنع سے عجز و انکساری کا اظہار کیا؟ کیا تم نے خود اسے شراب پیتے دیکھا ہے ؟ اگر تمہارا جواب اثبات میں ہے تو تم شراب پینے میں اس کے شریک ٹھہرے، اور اگر نہیں دیکھا تو علم کے بغیر شہادت دینا تمہارے لیے کیوں کرروا ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا :’’ اگرچہ ہم نے یزید کو شراب پیتے نہیں دیکھا تاہم یہ بات درست ہے۔‘‘اس کے جواب میں حضرت ابن الحنفیہ نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ اہل شہادت کے بارے میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتے ۔ قرآن میں فرمایاگیا ہے:﴿ اِلَّا مَنْ شَہِدَ بِالْحَقِّ وَ ہُمْ یَعْلَمُوْنَ﴾ (سورہ زخرف:۸۶) میں اس معاملہ میں تم سے بری ہوں ۔‘‘ لوگوں نے کہا:’’ آپ خلیفہ بننا چاہتے ہیں تو چلیے ہم آپ کو اپنا حاکم تسلیم کرتے ہیں ۔‘‘ امام ابن الحنفیہ نے فرمایا:میں حاکم یا محکوم کسی صورت میں بھی لڑائی کو حلال نہیں سمجھتا۔‘‘ لوگوں نے کہا:’’ آپ اپنے والد کی حمایت میں لڑ چکے ہیں ۔‘‘ابن الحنفیہ نے فرمایا: ’’ میرے والد جیسا کوئی شخص لے آؤ، میں اس کی حمایت میں لڑنے سے گریز نہیں کروں گا۔‘‘لوگوں نے کہا:’’ تو اپنے دونوں بیٹوں قاسم اور ابو القاسم سے کہیے کہ وہ ہمارے ساتھ مل کر دشمن سے لڑیں ۔‘‘ ابن الحنفیہ نے کہا:’’ اگر میں نے بیٹوں کولڑائی کا حکم دے دیا تو گویا خود لڑائی میں شریک ہوا۔‘‘ لوگوں نے کہا:’’ ہمارے ساتھ کسی جگہ چل کر لوگوں کو جنگ کی رغبت دلائیں ۔‘‘ابن حنفیہ نے کہا:’’ سبحان اﷲ! میں لوگوں کو ایسی بات کہوں جس پر خود عمل پیرا نہیں اور اسے پسند بھی نہیں کرتا۔‘‘لوگوں نے کہا: ’’تو ہم آپ کو اس بات پر مجبور کریں گے۔‘‘ ابن حنفیہ نے فرمایا: میں تو لوگوں کو اﷲ سے ڈرنے اور اس بات کا حکم دوں گا کہ مخلوق کو راضی کرنے کے لیے اﷲ کی ناراضگی مول نہ لیں ۔‘‘اس کے بعد ابن حنفیہ عازم مکہ ہوئے۔ (البدایہ والنہایۃ ، لابن کثیر:۸؍۲۳۳) یزید کے حق میں یہ ایک عینی شاہد کی بیان کردہ تاریخی نص ہے۔ ابن حنفیہ ایک ایسے معتبر راوی ہیں کہ اگر ان سے کوئی بھی نص شرعی منقول ہوتی تو سب ائمہ اسلام اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہوتے۔ اس سے بڑھ کر اور کون سا وصف مطلوب ہے کہ ابن حنفیہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جگر گوشہ ہیں ۔ صحیح مسلم کی کتاب الامارۃ میں حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ اس ضمن میں عبد اﷲ بن مطیع کے یہاں گئے، تو اس نے کہا ابو عبد الرحمن کے لیے مسند رکھیے۔ حضرت عبد اﷲ نے کہا: میں آپ کے یہاں بیٹھنے کے لیے نہیں آیا بلکہ ایک حدیث سنانے آیا ہوں جو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، آپ نے فرمایا:’’ جس نے اطاعت سے ہاتھ کھینچ لیا وہ بروز قیامت اﷲ تعالیٰ کو اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی اور جو شخص بیعت کے بغیر مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘ (صحیح مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین(حدیث:۱۸۵۱) صحیح بخاری کتاب الفتن میں ہے کہ جب اہل مدینہ نے یزید کی بیعت ترک کردی تو حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے خدم و حشم اور بچوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے:’’ ہر دھوکہ باز کے لیے بروز قیامت جھنڈا نصب کیا (