کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 596
جیسے ان کا مہدی اور اس کی اولاد ؛ مثلاً : معز ‘ حاکم اوران کے امثال۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ جو لوگ خلفاء بنو امیہ اور بنو عباس کے معصوم ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں [اگرچہ یہ بھی غلط ہے ؛ تاہم ] یہ لوگ شیعہ سے کئی وجوہات کی بنا پر بہتر ہیں ۔ اس لیے کہ بنو امیہ اور بنو عباس کے خلفاء ظاہری و باطنی طور پر مسلمان تھے۔ ان کے گناہ بھی ایسے ہی تھے جیسے دیگر کسی مسلمان کے گناہ ہوسکتے ہیں ؛ وہ کافر یا منافق نہیں تھے۔ یہ باطنیہ [ شیعہ] فرقہ کے لوگ یہود و نصاری سے بڑے کافر ہیں ۔ جوان کے معصوم ہونے کا عقیدہ رکھے وہ ان لوگوں سے بڑھ کر جاہل اور گمراہ ہے جو خلفاء بنو امیہ اور بنو عباس کے معصوم ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ بلکہ اگر کوئی تمام مسلمان بادشاہوں کے معصوم ہونے کا عقیدہ رکھے جو ظاہری وباطنی طور پر مسلمان تھے؛ تو پھر بھی [باطنی شیعہ ان سے بڑھ کر گمراہ ہیں ؛ یہ لوگ ]ان سے بہتر ہیں جو ان ائمہ کے معصوم ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو جہالت اہل سنت والجماعت کے لوگوں میں پائی جاتی ہے ؛ شیعہ میں پائی جانے والی جہالت اور گمراہی اس سے کئی درجہ بڑھ کر ہے۔ خصوصاً ان [باطنیہ ‘ اسماعیلیہ وغیرہ] کی گمراہی نفاق اور زندیقیت پر مبنی ہوتی ہے نہ کہ جہالت اورتأویل کی وجہ سے ۔ جب کہ ان [اہل سنت] میں اس کی وجہ جہالت ہوتی ہے؛ زندیقیت یا نفاق نہیں ہوتے۔بلکہ ان کی وجہ بدعات ؛ تاویل یا علم شریعت کی کمی ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب و سنت کا صحیح پیغام جب ان لوگوں کے سامنے آتا ہے تو اپنے سابقہ عمل و عقیدہ سے رجوع کرلیتے ہیں ۔ جب کہ ملحدین اپنے باطن میں یہ یقین رکھتے ہیں کہ جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے پیغام کے ساتھ تناقض رکھتا ہے۔ مگر پھر بھی وہ اس مخالفت پر اس لیے کمر بستہ رہتے ہیں کہ ان کا عقیدہ ہے کہ آپ نے اپنے عقل و فضیلت کی بنا پر ناموس [دین کوپوشیدہ اوررازمیں ] رکھا تھا ۔ پس ہمارے لیے بھی ایسے ہی ناموس رکھنا جائز ہے جیسے آپ نے رکھا تھا۔[یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دین چھپانے کا الزام لگاکر خود حق بات چھپاتے ہیں ]۔اس لیے کہ ان کے ہاں نبوت ایک کسبی چیز ہے۔ ان کے ہاں نبوت ایسے ہی جیسے علماء و عباد کو حاصل ہونے والی فضیلت ۔ اور شریعت ویسے ہی ہے جیسے کسی عادل بادشاہ کی سیاست ۔ اس بنا پر وہ اس شریعت کو کسی دوسرے امام کی وضع کردہ شریعت سے منسوخ کرنا جائز سمجھتے ہیں ۔ ان کاکہنا ہے : ’’بیشک شریعت عامہ[عوام الناس؛یا اہل سنت] کے لیے ہے ۔ جب کہ ان کے لیے وہی کچھ ہے جس پر باطن میں وہ عمل کرتے ہیں ۔ ان سے واجبات ساقط ہوچکے ہیں ‘ او رمحرمات ان کے لیے مباح کردی گئی ہیں ۔ یہ لوگ اوران جیسے دوسرے لوگ یہود و نصاری سے بڑے کافر ہیں ۔بلکہ اگر مان لیا جائے کہ کچھ لوگ بنی امیہ یا بنی عباس میں سے کسی ایک عصمت کا عقیدہ رکھتے ہیں ‘ یا [ خیال کرتے ہیں کہ ] ان کا کوئی گناہ نہیں ؛ یا پھر اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے ان کے گناہوں پر مؤاخذہ نہ کرے گا۔ جیسا کہ بنو امیہ کے بعض اتباع سے نقل کیا گیا ہے کہ خلیفہ کے نیک اعمال قبول کیے جاتے اور برے اعمال سے درگزر کی جاتی ہے۔ یہ لوگ بلاشبہ گمراہ ہیں ۔ مگر ان کی گمراہی ان لوگوں کے مقابلہ میں کم ہے جو امام منتظر کی عفت و عصمت کا عقیدہ رکھتے ہیں جوکہ اصل میں معدوم ہے۔یا ان لوگوں کی عصمت کے قائل ہیں
[1] شیخ عدی بن مسافر المتوفی(۴۶۷۔۵۵۷) ایک عابد و زاہد شخص تھے انھوں نے دیکھا کہ شیعہ یزید پر طرح طرح کے بہتان باندھتے اور اس کے دین و اخلاق پر حملے کرتے ہیں ۔ روافض کے اس رویہ سے تنگ آکر شیخ عدی نے اعلان کردیا کہ یزید امام تھا اور شیعہ کے سب اتہامات اس کے خلاف کذب ہیں ۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے رسالہ’’ العدویہ‘‘ میں لکھا ہے کہ شیخ عدی کا مسلک افراط و تفریط سے پاک تھا۔ شیخ عدی کے ایک نائب حسن کے زمانہ میں روافض اتباع عدی کی ایک جماعت پر حملہ آور ہوئے۔ اور عدی کے خلیفہ شیخ حسن کو قتل کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیخ عدی کے مریدوں نے اس طرح غلو سے کام لینا شروع کیا جس طرح شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت کے بارے میں مبالغہ آمیزی کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ کرد جو شیخ عدی کے مرید تھے یزید کو نبی قرار دینے لگے۔ امام ابن تیمیہ کے زمانہ میں بعض کرد یہی عقیدہ رکھتے تھے۔ شیخ الاسلام نے ان کو راہ راست پر لانے کے لیے ’’الرسالہ العدویہ‘‘ تصنیف کیا اور اس میں واضح کیا کہ شیخ عدی نیک آدمی تھے۔ اگر اس وقت زندہ ہوتے تو ارادت مندوں کے اس اغراق و مبالغہ کو ناپسند کرتے۔’’الرسالہ العدویہ‘‘ کا ایک قدیم ناقص الآخر نسخہ دارالکتب المصریہ میں تاہنوز محفوظ ہے۔ علامہ محقق احمد تیمور پاشا نے الرسالہ العدویہ کے چند فقرے اپنے رسالہ ’’الیزیدیت‘‘ میں درج کیے ہیں ہم رسالہ مذکورہ کو دو مرتبہ طبع کراچکے ہیں ۔ آخری مرتبہ یہ ۱۳۵۲ ہجری میں چھپا۔ رسالہ مذکور سے واضح ہوتا ہے کہ کرد یزید کو نبی قرار دیتے ہیں ، پھر اس سے بڑھ کر منصب الوہیت پر فائز کردیا، اس فرقے کا نام ’’ یزیدیہ‘‘ ہے۔ قبیلہ کرد کی یہ جماعت شمالی عراق کے علاقہ منجارمیں بودو باش رکھتی ہے۔ کچھ لوگ روس کے صوبہ اور دمشق و بغداد و حلب کے نواح میں بھی سکونت گزیں ہیں ۔ شیخ عدی کردوں کے یہاں جبال ہکار میں جانے سے پیشتر لبنان و شام کے ایک گاؤں میں رہ کر مصروف عبادت رہا کرتے تھے۔ یہ بعلبک کے قریب بیت فارنامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ تصوف میں شیخ عبد القادر جیلانی اور عبد القاہر سہروردی، عقیل ینجی ۔ حماد دبّاس اور ابوالوفا حلوانی کے شاگر دتھے۔ اگر شیخ عدی کے اتباع ان کے طریقہ پر گامزن رہتے تو نہایت ہی صالح مسلمان ہوتے مگر انھوں نے کفر کی حد تک غلو سے کام لیا۔ دراصل ان کا غلوّ روافض کے غلو سے پیدا شدہ اور اس کے توڑکی کوشش ہے۔