کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 591
چوتھی بات : ان سے کہا جائے گا کہ : ابلیس نے کفر کیا تھا؛ جیسے اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق خبری دی ہے ‘ فرمایا: ﴿اِِلَّا اِِبْلِیسَ اسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ﴾ [ص ۷۳] ’’ سوائے ابلیس کے ‘ اس نے تکبر کیا ‘اور وہ کافروں میں سے تھا۔‘‘ اگر تسلیم کرلیا جائے کہ اس کے کچھ نیک اعمال بھی تھے ‘ تو اس کے کفر کرنے کی وجہ سے وہ سارے ضائع ہوگئے۔ ایسے ہی باقی لوگوں کا حال ہے ؛ جو بھی کفر کریگا اس کے اعمال ضائع کردیے جائیں گے ۔ تو پھر ایسے مؤمنین سے تشبیہ کیسی ؟ پانچویں بات:....ان سے کہا جائے گا : ’’ تمہارا یہ کہنا کہ معاویہ شرک و کفر میں ہی رہے یہاں تک اسلام قبول کرلیا ۔‘‘ اس سے ان دونوں کے درمیان اجتماع کا فرق واضح ہوجاتا ہے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کفر کے بعد ایمان لائے؛ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے متعلق فرماتے ہیں : ﴿قُلْ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِنْ یَّنْتَہُوْا یُغْفَرْلَہُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ﴾ (الانفال:۳۸) ’’آپ کافروں سے فرمائیں کہ اگر وہ باز آجائیں تو ان کے سابقہ گناہ معاف کردیجیے جائیں گے۔‘‘ آپ نے اپنے شرک سے توبہ کی ؛ نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے والے بن گئے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنَِ ﴾ [التوبۃ۱۱] ’’اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ اداکریں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں ۔‘‘ ابلیس نے ایمان کے بعد کفر کیا ‘ جس کی وجہ سے اس کے ایمان والے سارے اعمال ضائع ہوگئے ۔ جب کہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے کفر کے بعد اسلام قبول کیا ؛ تو اسلام لانے سے ان کے دور کفر کے تمام اعمال ختم ہوگئے ۔ تو پھر ان دونوں کے درمیان موازنہ کیسے کیا جاسکتا ہے جب کہ ایک ایمان لانے کے بعد کافر ہوا؛ اور دوسرا کافر تھا ایمان لے آیا ؟ چھٹی بات : حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا ثابت ہے۔ اسلام سابقہ تمام گناہوں کو مٹا کر رکھ دیتا ہے۔اب جو کوئی آپ کے مرتد ہونے کا دعوی کرے ؛ اور اس کا جھوٹا ہونا معلوم نہ بھی ہو تب بھی یہ دعوی بغیر کسی دلیل کے ہے ۔تو پھر اس وقت کیا عالم ہوگا جب اس دعویدار کا جھوٹا ہونا معلوم ہو۔ آپ مرتے دم تک اسلام پر قائم رہے۔ جس طرح دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اسلام پر باقی رہنا معلوم ہے۔ جس ذریعہ سے باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا [مرتے دم تک ] اسلام پر قائم رہنا معلوم ہوتا ہے ؛ اسی ذریعہ سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا بھی اسلام پر قائم و باقی رہنا معلوم ہوتا ہے۔ شیعہ حضرت ابو بکر و عمرو عثمان و معاویہ رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابہ کو مرتد قرار دینے میں اسی طرح غلطی پر ہیں جیسے خوارج حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کافر تصور کرنے میں ۔ جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کافر قرار دینے والے جھوٹے ہیں ‘ ایسے ہی ان باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کافر و مرتد قرار دینے والوں کا جھوٹ بالکل واضح اور ظاہر ہے ۔اس لیے کہ ان لوگوں کے ایمان پر باقی رہنے کی دلیل صاف واضح اور ظاہر ہے۔اور خوارج کا شبہ روافض کے شبہ سے زیادہ قوی ہے ۔ ساتویں بات : ....اگر اس دعوی کو سچ تسلیم کرلیا جائے تو اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور دیگر کے