کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 590
کسی معمولی بات پر احتجاج کرنا بھی درست نہیں چہ جائیکہ اس بات کی دلیل کے طور پر پیش کیا جائے کہ ابلیس گناہ گار بنی آدم سے افضل تھا اور صحابہ کو ان لوگوں کو شامل کیا جائے جن سے ابلیس بہتر تھا۔
اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں بھی ابلیس لعین کا ذکر مدح وستائش کے انداز میں نہیں کیا۔نہ ہی اس کی سابقہ کی عبادت کی وجہ سے اور نہ ہی کسی دوسری وجہ سے ۔ اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ اگر اس کی کوئی عبادت تھی بھی؛ تووہ اس کے مرتد ہونے سے ضائع ہوگئی۔
اس سے بھی عجیب رافضی کا یہ کہنا ہے کہ: ’’ اکیلے ابلیس نے چھ ہزار سال تک اللہ تعالیٰ کے عرش کو اٹھائے رکھا ۔‘‘
سبحان اللّٰہ! کیا یہ بات کسی ایسے مسلمان عالم نے کہی ہے جس کی بات مسلمانوں میں مقبول ہو؟ اور کیا کسی جاہل اور غلو کار کے علاوہ کوئی دوسرا بھی یہ بات کہہ سکتا ہے ؟ اگر یہ بات سچ ہوتی تو کسی بھی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور منقول ہوتی۔
پھر اکیلے فرشتہ کا بھی عرش کو اٹھانے کا کہنا صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ابلیس توحاملین عرش میں بھی شامل نہ تھا، تنہا حامل عرش ہونا تو ایک جداگانہ بات ہے ۔ یہ سب یاوا گوئی ہے اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ ابلیس کے جملہ اعمال صالحہ اگر تھے بھی تو وہ ضائع ہو گئے تھے۔[نیز یہ کس نے کہا کہ : اکیلا ابلیس حاملین عرش میں سے تھا ؟]یہ سب سے بڑا اور کھلا ہوا جھوٹ ہے ۔ جب کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿الَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہُ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ [غافر۷]
’’وہ جو عرش کواٹھائے ہوئے ہیں اور وہ جو اس کے ارد گرد ہیں اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اورا ن لوگوں کے لیے بخشش کی دعا کرتے ہیں جو ایمان لائے۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس کا عرش اٹھانے والے کئی فرشتے ہیں ‘ صرف کوئی ایک نہیں ہے۔ اور یہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی حمد و تسبیح بیان کرتے ہیں اور اہل ایمان کی مغفرت کے لیے دعا کرتے ہیں ۔
اگر کوئی یہ کہے :’’ یہ عرش اٹھائے جانے کے متعلق مطلق ایک خبر ہے ۔ اس میں کہیں بھی بیان نہیں ہے کہ وہی حاملین ابھی تک عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں ۔‘‘
تو اس کے جواب میں کہا جائے گا : صحیح روایات میں آیا ہے کہ وہی حاملین عرش ابھی تک اللہ تعالیٰ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں ۔ عبد اللہ بن صالح اور معاویہ بن صالح سے روایت ہے :’’ جب اللہ تعالیٰ نے عرش کو پیدا کیا تو فرشتوں کو عرش اٹھانے کا حکم دیا ۔ وہ عرض گزار ہوئے :ہم اس عرش کو کیسے اٹھائیں گے جب کہ اس پر آپ کی عظمت ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
’’ کہو: لا حول و لا قوۃ إلا باللّٰہ‘‘ جب فرشتوں نے یہ کلمہ کہا تو ان میں عرش اٹھانے کی طاقت پیدا ہوگئی۔‘‘
[1] یہ وہ کتب ہیں جو عوام کو وعظ سنانے کے لیے ترتیب دی گئی ہیں ، ان میں ترغیب و ترہیب پر مشتمل مبالغہ آمیز حکایات ہوتی ہیں ، جو تاریخ و تراجم کی کسی کتاب میں مذکور نہیں ۔ یہ مبالغہ سنت الٰہی کے منافی ہو یا نہ ہو، البتہ کتاب و سنت کی تصریحات کے ضرور خلاف ہوتا ہے، ان کتب کے مصنفین باسند یا بے سند اور مصادر کا نام لے کر یا نام لیے بغیر جو احادیث بیان کرتے ہیں ان کی صحت کے اثبات میں چشم پوشی سے کام لیتے ہیں کہ یہ احادیث عوام کو وعظ سنانے کے لیے ذکر کی جاتی ہیں ، استنباط احکام کے لیے نہیں ، حالانکہ ان لوگوں کو احادیث سنانے کی بجائے ان کے سامنے اپنا عملی نمونہ پیش کرنا زیادہ مفید ہوتا ہے، اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ احادیث سنتے تو ان میں سے اکثر کو ردّ فرما دیتے۔