کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 584
جنگیں تھیں ۔ اس بارے میں نہ ہی اللہ اور رسول کا کوئی حکم تھا اور نہ ہی اجماع صحابہ۔ جب کہ مانعین زکواۃ سے جنگ؛ جب کہ وہ بالکل زکواۃ کی ادائیگی یا اس کی فرضیت کو تسلیم کرنے سے انکار کررہے ہوں ؛ تو یہ خوارج کے ساتھ قتال سے بڑا جہاد ہے۔ اہل صفین نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ شروع نہیں کی تھی۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور دیگر حضرات باغیوں سے قتال کو اس وقت تک جائز نہیں سمجھتے جب تک وہ امام سے برسر پیکار جنگ نہ ہوجائیں ۔ ایسے ہی امام احمد ؛ امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہم اللہ ان لوگوں سے قتال کو جائز نہیں کہتے جو واجب ادا کرتے ہوں ؛ لیکن کسی وجہ سے انکار کررہے ہوں ۔ مثلاً وہ یہ کہیں کہ : ہم فلاں کو زکواۃ نہیں دیتے؛ [بلکہ خود ادا کریں گے]۔تواس صورت میں مرتدین اور خوارج کے درمیان جنگ کے لیے فرق کرنا پڑتا ہے۔ قرآن کریم میں مذکور باغیوں سے جنگ ایک تیسری قسم ہے؛ جو کہ پہلی دونوں اقسام میں سے نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے باغیوں سے جنگ شروع کرنے کا حکم نہیں دیا۔ بلکہ حکم یہ دیا ہے کہ جب اہل ایمان کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے مابین صلح کروادو۔ جبکہ مرتدین اور خوارج کا یہ حکم نہیں ہے۔ جب کہ جمل اور صفین کی لڑائیوں کی بابت اختلاف ہے ؛ کیا ان سے جنگ باغیوں کے ساتھ جنگ ہے جس کا حکم قرآن میں دیا گیا ہے۔ یا پھر فتنہ کی جنگ تھی جس میں بیٹھا ہوا انسان کھڑے انسان سے بہتر ہوتا ہے۔ پس اس جنگ سے بیٹھ رہنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ؛ جمہور اہل سنت محدثین ؛ ائمہ فقہاء؛ اور ان کے بعد والے کہتے ہیں : یہ فتنہ کی جنگیں تھیں ۔ یہ باغیوں کی ساتھ جنگ نہیں تھی جس کا حکم قرآن کریم میں دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے باغی اہل ایمان سے ؛ محض ان کی بغاوت کی وجہ سے جنگ کی ابتداء کرنے کا حکم نہیں دیا۔بلکہ حکم یہ دیا ہے کہ جب دو اہل ایمان لڑ پڑیں تو ان کے مابین صلح کرادیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرَی ﴾ (الحجرات:۹) ’’ اگر ایک فریق دوسرے پر ظلم و تعدی کا مرتکب ہو تو[ اس سے لڑو]۔‘‘ یہاں پر ضمیر کامرجع اہل ایمان کے وہ دو گروہ ہیں جو آپس میں لڑپڑے ہیں ۔ اس کا مرجع وہ مؤمن گروہ نہیں جو کسی سے لڑا ہی نہیں ۔ تو تقدیر عبارت یوں ہو گی: ﴿ فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَی الطائفتین المؤمنین المقتتلین عَلَی الْاُخْرَی فَقَاتِلُوا الباغیۃ حَتّٰی تَفِیئَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ ﴾ ’’ اگردو متحارب اہل ایمان گروہوں میں سے ایک فریق دوسرے پر ظلم و تعدی کا مرتکب ہو تو اس ظلم کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ حکم الٰہی کی جانب واپس آجائے۔‘‘ پس جب کوئی گروہ باغی تو ہو مگر وہ لڑ نہ رہا ہو ؛ تو اس آیت میں ان سے جنگ کرنے کا حکم کہیں بھی نہیں ۔ پھر یہ فرمان الٰہی : ﴿فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرَی﴾ (الحجرات:۹) ’’ اگر ایک فریق دوسرے پر ظلم و تعدی کا مرتکب ہو تو ....‘‘اگر اصلاح کے بعد یہ ظلم و زیادتی ہو یہ حکم تاکیدی ہو جاتا ہے۔ اگر جنگ سے بعد میں مقصود حاصل ہوسکتا ہو۔
[1] بالکل مختلف ہے اور وہ قتال کی تیسری جداگانہ قسم ہے اس لیے کہ اﷲتعالیٰ نے باغیوں سے ابتدائً لڑنے کا حکم نہیں دیا، بلکہ ان کی اصلاح کا حکم دیا ہے، حالانکہ مرتدین اور خوارج کے بارے میں شرعی حکم اس سے مختلف ہے۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا جنگ جمل و صفین باغیوں کے خلاف لڑی گئیں یا ان کو قتال فتنہ قرار دیا جائے۔ جس میں بیٹھ رہنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہے۔ صحابہ میں سے جو لوگ ان میں شریک نہیں ہوئے تھے اور وہ جمہور اہل حدیث ان کو قتال فتنہ ٹھہراتے ہیں ۔ ان کا نقطہ ٔ نگاہ یہ ہے کہ اگر اصحاب معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کرنے کی بنا پر باغی ہو گئے تھے تو مذکورہ آیت میں ان کے جنگ آزما ہونے کا حکم موجود نہیں اور اگر فرض کیا جائے کہ وہ جنگ کے بعد باغی ہوگئے تھے تو صلح کرانے والا کوئی نہ تھا۔امام ذہبی کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمار والی حدیث میں کہ ’’ تجھے باغی جماعت قتل کرے گی‘‘ ان کو باغی قرار دیا ہے۔ یہ ایسے مباحث ہیں جن کی بنا پر اصحاب معاویہ کی تکفیر ہر گز درست نہیں ۔ ایک مرتبہ ابو موسیٰ منبر پر لوگوں کو یہ حدیث سنا رہے تھے، اسی دوران اشتر نخعی نے چند آدمیوں سمیت دارالامارۃ پر قبضہ کر لیا۔ جب ابو موسیٰ دارالامارۃ کی طرف لوٹے تو اشتر نے یہ کہہ کر داخل ہونے سے روک دیا کہ ’’ ہماری امارت کو چھوڑ دو۔‘‘ ابو موسیٰ فتنہ بازی کی یہ زندگی چھوڑ کر عروض نامی گاؤں میں عزلت گزیں ہو گئے، جب لوگ خون ریزی سے سیر ہو گئے اورانھوں نے محسوس کیا کہ ابو موسیٰ جنگ سے روکنے میں حق بجانب تھے تو انھوں نے حضرت علی سے مطالبہ کیا کہ ابو موسیٰ تحکیم کے معاملہ میں اہل عراق کے نمائندہ ہوں ۔ چنانچہ حضرت ابوموسیٰ کو گوشہ عافیت سے اٹھا کر لایا گیااور آپ نے ایک ناصح کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کیا۔