کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 583
یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں فقہاء کے مابین اختلاف و نزاع ہے ۔پس جو لوگ حکمران کی اطاعت ترک کرنے پر قتال کو جائز قرار دیتے ہیں ‘ وہ اس جنگ کو بھی جائز کہتے ہیں ۔ یہ فقہاء کی ایک جماعت کا قول ہے ‘اور امام شافعی سے بھی منقول ہے۔ اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے ترک کے علاوہ کسی چیز پر قتال کو جائز نہیں سمجھتے ‘ اور نہ ہی کسی متعین شخص [حاکم] کی اطاعت ترک کرنے پر قتال کو جائز سمجھتے ہیں ‘ وہ ان لوگوں سے قتال کو بھی جائز نہیں سمجھتے۔
پس جملہ طور پر خلاصہء کلام یہ ہے کہ : جن لوگوں سے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے قتال کیا ‘ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے رکے ہوئے تھے اور آپ کے لائے ہوئے پیغام کو نہیں مانتے تھے۔اسی وجہ سے وہ مرتد ٹھہرے ۔ بخلاف ان لوگوں کے جو اس کا اقرار کرتے ہیں ؛ لیکن کسی متعین شخص کی اطاعت کو تسلیم نہیں کرتے؛ جیسے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام ۔ اس لیے کہ یہ لوگ ان تمام چیزوں کو مانتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیکر آئے تھے۔ نماز قائم کرتے تھے ‘ زکوٰۃ ادا کرتے تھے ۔ اور کہتے تھے : ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت میں داخل ہوئے بغیر بھی واجبات ادا کریں گے۔ ایسا کرنے میں ہمیں ضرر لاحق ہوگا۔ تو پھر کہاں یہ لوگ اور کہاں وہ لوگ ؟ [تو شیعہ اس کے جواب میں نواصب کو کیا کہیں گے؟]
[مانعین زکواۃ اور فقہاء کا مؤقف ]:
یہ جان لینا چاہیے کہ فقہائے کرام جن کا تعلق امام ابو حنیفہ ؛ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے اصحاب سے ہے؛ وہ خوارج اور مانعین زکواۃ سے جنگوں کو باغیوں کے خلاف جنگیں قرار دیتے ہیں ۔ اوروہ جمل اور صفین کو بھی اسی باب سے شمار کرتے ہیں ۔ یہ قول کبار ائمہ اسلام کے قول کے خلاف ہے؛ اورامام مالک ؛ احمد اور ابوحنیفہ اور دیگر ائمہ سلف رحمہم اللہ سے وارد منصوص کے بھی خلاف ہے۔ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد سنت کے بھی مخالف ہے۔ بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوارج سے جنگ کرنے کا حکم دیا تھا؛ اوراس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی اتفاق تھا۔ جبکہ جمل اور صفین کی جنگیں فتنہ کی
[1]
[1] [[اس مسئلہ کی مزید تفصیل منہاج السنہ میں یوں نقل کی گئی ہے ]]:واضح رہے کہ فقہائے حنفیہ ، شافعیہ اور حنابلہ کی ایک جماعت نے مانعین زکوٰۃ اور خوارج سے لڑنے کو باغیوں کے خلاف جہاد و قتال قرار دیا ہے ۔ ان کے نزدیک جمل و صفین کی لڑائیاں بھی اس میں شامل ہیں ۔ یہ قول مبنی بر خطا اور امام ابوحنیفہ، مالک، احمد اور دیگر اسلاف کی تصریحات نیز سنت نبوی کے بھی خلاف ہے۔اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوارج سے لڑنے کا حکم دیا تھا اور سب صحابہ اس میں یک زبان تھے۔ البتہ جمل و صفین کی لڑائی قتال فتنہ تھی ؛ باغیوں کے خلاف جنگ نہ تھی۔ اس کے بارے میں آپ نے کوئی حکم دیا نہ اس پر اجماع صحابہ قائم ہوا۔ علاوہ ازیں اہل صفین نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف لڑائی کا آغاز بھی نہیں کیا تھا۔[اس ضمن میں حضرات صحابہ تین فرقوں میں بٹ گئے تھے۔ اس لیے اجماع منعقد نہ ہوسکا۔ ایک فریق تو حضرت علی کا معاون تھا اور دوسرا حضرت معاویہ کا۔ تیسرا فرقہ جس کے سرخیل عبد اﷲ بن عمر بن خطاب تھے، اسے فتنہ قرار دیتے اور اس سے کنارہ کش تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب تحکیم کے واقعہ میں عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کو خلافت کی پیش کش کی گئی تو آپ نے معذرت فرمائی۔ ان امور میں صحابہ کا اجماع منعقد نہیں ہوا تھا۔‘‘]
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور بعض دیگر علماء باغیوں سے اس وقت لڑنے کی اجازت دیتے ہیں جب وہ حاکم وقت کے خلاف لڑائی کا آغاز کردیں ۔ امام ابوحنیفہ، مالک اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے نزدیک خلیفہ ان لوگوں سے لڑنے کا مجاز نہیں جو شرعی واجبات ادا کرتے ہوں مگر یہ کہیں کہ ہم فلاں شخص کو زکوٰۃ نہیں دیں گے۔ بنا بریں قتال مرتدین اور خوارج کے خلاف جہاد و قتال کے مابین فرق و امتیاز ضروری ہے۔ البتہ مانعین زکوٰۃ جب زکوٰۃ بالکل ادا نہ کریں اور اس کی فرضیت کے بھی قائل نہ ہوں تو ان کے خلاف صف آراء ہونا خوارج کے مقابلہ میں لڑنے سے زیادہ ضروری ہے۔مزید براں قرآن کریم میں باغیوں کی جس لڑائی کا ذکر کیا گیا ہے وہ سابقاً ذکر کردہ دونوں لڑائیوں سے(