کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 582
تو اس حدیث کی رو سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کافر ٹھہرے ۔تمہاری[شیعہ کی ] دلیل نواصب کی دلیل سے زیادہ قوی نہ ہوگی۔ اس لیے کہ نواصب نے جن احادیث سے استدلال کیا ہے ‘ وہ صحیح روایات ہیں ۔ ایسے ہی نواصب [روافض سے ] یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ : کسی نفس کو قتل کرنا زمین میں فساد پھیلانا ہے۔ اور جو کوئی اپنی اطاعت منوانے کے لیے لوگوں کو قتل کرے وہ بلند مرتبہ کی تلاش میں زمین میں فساد پھیلانے والا ہے ۔ یہی حال فرعون کا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا وَ الْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ﴾ (القصص۸۳)
’’ یہ آخرت کا گھر، ہم اسے ان لوگوں کے لیے بناتے ہیں جو نہ زمین میں کسی طرح اونچا ہونے کا ارادہ کرتے ہیں اور نہ کسی فساد کا اور اچھا انجام متقی لوگوں کے لیے ہے۔‘‘
جوکوئی زمین میں فساد و سرکشی پھیلائے وہ آخرت میں اہل سعادت میں سے نہیں ہوسکتا۔یا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے مانعین زکوٰۃ اور مرتدین سے قتال کی طرح نہیں ہوسکتا۔اس لیے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے انہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر قتل کیا تھا؛ نہ کہ اپنی اطاعت پر۔ اس لیے کہ زکوٰۃ ان پر فرض تھی۔تو آپ نے ان سے اس کا اقرار کروانے اور ادا کروانے کے لیے قتال کیا۔بخلاف اس کے جو صرف اس وجہ سے قتال کرے کہ اس کی اطاعت کی جائے۔ اسی لیے امام ابو حنیفہ ‘ امام احمد اور دوسرے علماء کرام رحمہم اللہ نے فرمایا ہے :
’’ جو انسان یہ کہے کہ :’’ میں زکوٰۃ ادا کرتا ہوں ‘ مگر حاکم وقت کو نہیں دوں گا[بلکہ خود اپنے ہاتھ سے کسی کو دوں گا] تو امام کے لیے اس کے خلاف جنگ کرنا جائز نہیں۔[1]
[1] اصلی مخاطب تصور کرتے ہیں جب کہ شیعہ اپنے آپ کو اس آیت کا مخاطب تسلیم نہیں کرتے، اس لیے کہ وہ حضرت ابوبکر و عمر اور ان صحابہ رضی اللہ عنہم کی راہ پر گامزن نہیں ،جو مسلک محمدی کے سالک تھے۔ اس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ اہل سنت صالحین کے وارث ہیں اور شیعہ ان اہل فتنہ کی یاد گار ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں شریک تھے۔ اس پر طرہ یہ کہ شیعہ آج تک اسی ڈگر پر گامزن ہیں اور فتنہ پردازی کے پرانے طریق کار کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ یہ وہی بات ہے جو عبد اﷲ بن مصعب بن زبیر نے خلیفہ ہارون الرشید کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہی تھی۔ حضرت عبد اﷲ بن مصعب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا:’’ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر جن لوگوں نے اعتراضات کیے تھے وہ شیعہ خارجی اور اہل بدعت تھے اور جن لوگوں نے آپ کی حمایت کی تھی وہ وہی لوگ تھے جن کو آج کل اہل سنت والجماعت کہا جاتا ہے۔‘‘خلیفہ ہارون الرشید نے غوروفکر کے بعد اس بات کو درست پایا اور کہا:’’ اس کے بعد مجھے یہ مسئلہ دریافت کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔‘‘
صحیح بخاری، کتاب الصلح، باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم للحسن بن علی رضی اللّٰہ عنہما (حدیث:۲۷۰۴)۔
[2] صحیح بخاری، کتاب الایمان ، باب خوف المؤمن من ان یحبط عملہ، (ح: ۴۸) ،صحیح مسلم۔ کتاب الایمان، باب بیان قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم سباب المسلم فسوق....‘‘(حدیث:۶۴)
[3] صحیح بخاری،کتاب العلم، باب الانصات للعلماء(ح:۱۲۱،۷۰۸۰) صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان معنی قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’ لا ترجعوا بعدی کفاراً ‘‘ (ح:۶۵،۶۶)