کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 581
’’اگر مومنوں کے دو گروہ لڑپڑیں تو ان دونوں کے ما بین صلح کرادیجیے۔‘‘
صحیح حدیث میں یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا :
مسلمانوں کے مابین تفرقہ بازی کے وقت ایک فرقہ کا ظہور ہوگا ‘ اور ان دو گروہوں میں سے ان کو وہ لوگ قتل کریں گے جو حق کے زیادہ قریب ہوں گے ۔‘‘ [مسلم ۲؍۷۳۵؛ سنن ابو داؤد ۳؍۳۰۰]
سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ میرا یہ بیٹا(حضرت حسن رضی اللہ عنہ ) سردار ہے۔ اﷲتعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں کے مابین صلح کرائے گا۔‘‘[1]
نیز سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا : ’’ اے عمار! تجھے باغی گروہ قتل کرے گا۔‘‘
یہ نہیں فرمایا کہ : ’’تجھے کافروں کاگروہ قتل کرے گا ۔‘‘[یہ حدیث پہلے کئی مقامات پر گزر چکی ہے ]
یہ احادیث مبارکہ اہل علم کے ہاں صحیح ہیں ‘ اور متعدد اسناد سے روایت کی گئی ہیں ۔ان میں سے کوئی حدیث بھی دوسری روایت سے تعارض نہیں رکھتی۔ان احادیث کے مضمون سے یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں متفرق گروہ مسلمان ہوں گے اور اس انسان کی مدح کی ہے جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ ان دونوں کے مابین صلح کرائے گا۔ اور یہ بھی خبر دی کہ اسلام سے ایک گروہ نکلے گا ‘ اور انہیں ان دوجماعتوں میں سے وہ لوگ قتل کریں گے جو حق کے زیادہ قریب ہوں گے۔پھر اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر نواصب(اﷲ ان کو رسوا کرے) شیعہ سے کہیں کہ:
’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کو مباح الدم قرار دیا اور حصول اقتدار کے لیے جنگ لڑی، حالانکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :’’ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔‘‘[2]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:’’ میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کو قتل کرتے پھرو۔‘‘[3]
[1] اہل ایمان سے خطاب کرکے فرمایا کہ: ان کا موقف یہ ہونا چاہئے کہ فریقین جب بھی برسر پیکار ہوں وہ ان کے مابین صلح کرانے کے لیے سعی و جہد کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں ۔ کسی شخص میں اصلاح بین المومنین کا جذبہ جس حد تک بھی موجزن ہو گا وہ اس قدر صادق الایمان ہوگا اور وہ اتنا ہی زیادہ روح اسلام اور اس کے غایات و مقاصد سے قریب تر ہوگا۔ اور وہ جس قدر متنازع فریقین کے مابین شقاق و نفاق کا آرزو مند ہوگا، اسی قدر ضعیف الایمان اور روح ایمان سے بعید تر ہو گا۔ مختلف مذاہب و ادیان کے لوگ اس کتاب کا مطالعہ کریں گے ۔ غیر مسلم قاری جب جملہ اختلافی مباحث کے بارے میں اہل سنت و شیعہ کے رجحانات و میلانات کا موازنہ کرے گا تو وہ یہ دیکھ کر حیران ہوگا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے برادران کرام صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان جو اختلافات پائے جاتے ہیں شیعہ کی ہر ممکن کوشش ہو گی کہ وہ شدت وحدت اور الحاح و اصرار سے ان کو بڑھاتا اور پھیلاتا چلا جائے ۔ اس کے عین برعکس اہل سنت اس امر میں کوشاں ہوں گے کہ حکمت و دانش اور رفق و انصاف کو کام میں لاکر فریقین کے درمیان کوئی عذر شرعی تلاش کیا جائے اور یہ ثابت کیا جائے کہ دونوں فریق حق سے دور نہیں ۔ نیز یہ کہ یہ واقعات خارجی عوامل و اسباب کے تحت وقوع پذیر ہوئے۔ جن میں سب سے بڑا مؤثر اہل فتنہ کا وجود نا مسعود ہے۔ اہل سنت ہمیشہ اتحاد و یگانگت اور موافقت و مطابقت کا پہلو اس لیے اختیار کرتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو مومن خالص اور زیر تبصرہ آیت کا(