کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 568
آپ اپنی امارت پر برقرار رہے ۔بنی جذیمہ کے موقع پر آپ کے اور جناب حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے مابین اختلاف ہوگیا تھا۔یہاں تک کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ میرے اصحاب کو برا نہ کہو ۔مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر کوئی تم میں سے احد پہاڑ کے برابر سونا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے تو میرے اصحاب کے ایک مد(سیر بھر وزن) یا آدھے کے ثواب کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘ [صحیح بخاری:جلد دوم:ح ۸۸۷]
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مرتدین کے خلاف جنگ میں امیر لشکر مقرر فرمایا۔ آپ نے شام اور عراق کے علاقے فتح کیے۔ دشمن کے خلاف جنگوں میں آپ کا کردار بہت اہم رہا ہے ؛ جس کا کسی کو بھی انکار نہیں ہوسکتا ۔ بلاشبہ آپ دشمن کے خلاف اللہ کی تلواروں میں سے ایک برہنہ تلوار تھے؛ جسے اللہ تعالیٰ نے مشرکین پر مسلط کردیا تھا۔
[اعتراض]:رافضی قلمکار کہتا ہے : ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس لقب کے سب سے زیادہ حق دار تھے ۔‘‘
[جواب]: پہلی بات: ....یہ بھی درست ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ’’سیوف اللّٰہ‘‘ میں سے ایک سیف تھے، اس میں تنازع کی گنجائش ہی کیا ہے ؟صحیح بخاری کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کی تلواریں کئی ایک ہیں ۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان میں سے بڑے معزز اورعظیم مرتبت والے ہیں ۔ مسلمانوں میں ایک انسان بھی ایسا نہیں ہے جو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر فضیلت دیتا ہو۔ اور کسی نے یہ وصف حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کیساتھ ہی مختص نہیں کیا۔آپ کے لیے یہ لقب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا: ’’ بیشک خالد اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں ۔‘‘
دوسری بات:....حضرت علی رضی اللہ عنہ علم و فضل، فصاحت و بلاغت اور سبقت اسلام کی بنا پر حضرت خالد رضی اللہ عنہ سے افضل تھے۔ آپ کی منزلت اس چیز سے بہت بلند ہے کہ آپ کا مقابلہ کسی تلوار سے کیا جائے۔ حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ میں جہاد و قتال کے سواعلم و بیان ‘ دین و ایمان اور سبقت اسلام اوردیگر بھی بہت سے فضائل ایسے تھے جن کی وجہ سے آپ کی شان اس امر سے بہت بلند ہوجاتی ہے کہ آپکی صفت صرف اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہونا قراردیا جائے؛ تلوار کا کام صرف لڑنا ہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جملہ فضائل و اوصاف میں سے ایک وصف قتال بھی تھا۔ جبکہ حضرت خالد کا خصوصی اور امتیازی وصف قتال تھا۔آپکو نہ ہی سبقت ِ اسلام کی فضیلت حاصل ہے‘ نہ ہی کثرت علم اور بہت بڑا عابد و زاہد ہونے کی۔ ہاں آپ جنگ وقتال میں باقی لوگوں پرفائق تھے؛ یہی ان کی وجہ فوقیت ہے اور اسی بنا پر آپ کو سیف اﷲ کا لقب ملا۔
[شبہ ]: رافضی کا قول ہے : ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار سے کئی کفار کو قتل کیا ۔‘‘
[جواب] : اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ نے کچھ کفار کو قتل کیا ہے۔جیسا کہ دیگر مشہور جنگجو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی قتال کیا ؛ جیسے حضرت عمر‘ حضرت زبیر ؛ حضرت حمزہ ؛ حضرت مقداد ؛ حضرت ابو طلحہ ؛ اورحضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہم
[1] صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ موتۃ من ارض الشام، (حدیث:۴۲۶۵)
[2] حضرت خالد بن ولید اور عمروبن عاص رضی اللہ عنہما نے اپنی مرضی سے ہجرت کی تھی۔ آپ کے والد مکہ کے عظیم رئیس تھے۔ اور آپ وہاں فارغ البالی کی زندگی بسر کرتے تھے۔آپ نے عیش و مسرت کی زندگی کو لات مار کر اقامت حق کی خاطر عازم مدینہ ہوئے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کرکے فرمایا:’’ مکہ نے اپنے جگر پارے تمہارے یہاں پھینک دیے ہیں ۔‘‘ سیرۃ ابن ہشام (ص:۴۸۴) مستدر ک حاکم(۳؍۲۹۷۔۲۹۸)اگرحضرت خالد اپنی عظیم فتوحات کی بنا پر جنت اور تاریخ اسلام کے اوراق میں بقا ء دوام سے بہرہ ور ہیں تو اس میں شبہ نہیں کہ وہ جن احوال و ظروف میں اسلام لائے اور نبی کریم نے ان پر مدح و ستائش کے پھول نچھاور کیے ان کی بنا پر دینی و دنیوی مجدد شرافت میں وہ اس سے زیادہ خلود و دوام سے بہرہ ور ہیں ۔
[3] صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب عزوۃ موتۃ فی ارض الشام،(حدیث:۴۲۶۵)۔
[4] صحیح بخاری، کتاب المغازی ، باب بعث النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم خالد بن الولید....(حدیث:۴۳۳۹)