کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 565
﴿قُلْ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِنْ یَّنْتَہُوْا یُغْفَرْلَہُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ﴾ (الانفال:۳۸) ’’ جو لوگ کافر ہیں ، ان سے فرمائیں کہ اگر وہ باز آجائیں تو ان کے سابقہ گناہ معاف کردیجیے جائیں گے۔‘‘ صحیح مسلم میں حضرت عبدالرحمن ابن شماسہ سے مروی ہے؛ فرماتے ہیں :کہ ہم عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جب وہ مرض الموت میں مبتلا تھے ؛وہ بہت دیر تک روتے رہے اور چہرہ مبارک دیوار کی طرف پھیر لیا۔ ان کے بیٹے ان سے کہہ رہے تھے کہ:’’ اے ابا جان آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو[جنت کی] بشارت نہیں سنائی؟ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ادھر متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ: ’’ ہمارے نزدیک سب سے افضل عمل اس بات کی گواہی دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوائے کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ اور مجھ پر تین دور گزرے ہیں ایک دور تو وہ ہے جو تم نے دیکھا کہ میرے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی مبغوض نہیں تھا اور مجھے یہ سب سے زیادہ پسند تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قابو پا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دوں ۔ اگر میری موت اس حالت میں آجاتی تو میں دوزخی ہوتا۔ پھر جب اللہ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈالی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : یارسول اللہ! اپنا دایاں ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کروں ۔‘‘جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ روک لیا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اے عمرو کیا بات ہے؟ ‘‘ میں نے عرض کیا : ایک شرط ہے۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کیا شرط ہے؟ میں نے عرض کیا : ’’ یہ شرط کہ کیا میرے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے عمرو کیا تو نہیں جانتا کہ اسلام لانے سے گزشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ۔ اور ہجرت سے گزشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ۔ اور حج کرنے سے بھی گزشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ۔‘‘[صحیح مسلم:جلد اول:ح 321] صحیح بخاری میں ہے کہ: جب حضرت معاویہ کی والدہ ہند حلقہ بگوش اسلام ہوئیں تو اس نے کہا:’’اﷲ کی قسم! کرۂ ارضی پر کوئی گھر ایسا نہ تھا جس کے اہل خانہ کا رسوا ہونا مجھے آپ کے اہل خانہ کے رسوا ہونے سے زیادہ عزیز تر ہو اور آج یہ عالم ہے کہ اس کائنات ارضی پر کسی اہل خانہ کا معزز ہونا مجھے آپ کے اہل خانہ کے اعزاز و اکرام سے زیادہ محبوب نہیں ۔‘‘[1]
[1] دیکھیے تاریخ طبری(۳؍۱۷) طبع حسینیہ نیز(ج:۱؍۴۰۳) طبع یورپ۔ عتبہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا بھائی تھا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ جنتی ہیں اورعتبہ جہنمی۔ محمد بن اسحاق حضرت سعد سے روایت کرتے کہ وہ کہا کرتے تھے:’’اﷲ کی قسم! میں عتبہ سے بڑھ کر کسی شخص کو قتل کرنے کا حریص نہ تھا۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے وہ اپنی قوم میں بدخلق مشہور تھا اور سب لوگ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ میرے لیے سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی کافی ہے کہ:’’ اس شخص پر اﷲ کا شدید غضب ہو گا جس نے رسول اﷲ کے چہرے کو خون آلود کیا۔‘‘(طبری:۳؍۲۰) ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگردمقسم روایت کرتے ہیں کہ ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ کے حق میں بد دعا کی تھی کہ سال گزرنے سے پیشتر وہ بہ حالت کفر مرجائے گا۔‘‘ چنانچہ عتبہ ایک سال کے اندر اندر کافر ہونے کی حالت میں مر گیا۔ یہ بھی مروی ہے کہ جنگ بدر کے بعد حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے عتبہ پر قابو پا کر اس کا سر اڑا دیا تھا۔(رواہ الحاکم فی المستدرک) اورسیرۃ ابن ہشام (ص:۳۸۶)۔ [2] سیرۃ ابن ہشام(ص:۳۹۳)، مسند احمد۱۰؍۴۶۳)،مطولاً [3] صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب کون الاسلام۔ یھدم ما قبلہ(حدیث:۱۲۱)