کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 563
آپ کو قیدی بنانے کے سوا دوسری سب تجویزیں مسترد کردیں ۔ آپ نے قیدی ہونے اور عبداﷲ بن زیاد کے سامنے سرتسلیم خم کرنے سے انکار کردیا اور ان کے خلاف لڑتے ہوئے بحالت مظلومی شہادت پائی۔ جب یزید کو شہادت حسین رضی اللہ عنہ کی خبر پہنچی تو اس نے بڑے درد و کرب کا اظہار کیا اور اس کے اہل خانہ نے آہ و بکا کا آغاز کیا۔ یزید رحمہ اللہ نے اہل بیت کی خواتین میں سے کسی کو قید نہیں کیا تھا۔[1]بلکہ انھیں عطیہ جات دیے اور عزت و احترام سے انھیں مدینہ رخصت کردیا۔ [ اس لیے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو خصوصی وصیت کی تھی کہ ہر قیمت پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا اکرام و احترام ملحوظ رکھے]۔ اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ : ’’ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا ‘‘ تو اس میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا کیا گناہ ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی﴾ [فاطر۱۸] ’’ کوئی جی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔‘‘ تمام لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے یزید کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے حق کا خیال رکھنے ‘ آپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے ‘ اور آپ کی تعظیم و توقیر بجالانے کی وصیت کی تھی۔ عمر بن سعد اس جماعت کا سردار تھا جنہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا ۔ جب کہ اس کے والد حضرت سعد رضی اللہ عنہ لوگوں میں سب سے زیادہ فتنہ سے دور رہنے والے تھے۔اس بیٹے کا اپنے باپ کیساتھ طلب خلافت کے مسئلہ میں ایک مشہور مکالمہ ہے ؛ جس میں حضرت سعد اس مطالبہ سے باز رہے۔ اس وقت آپ کے علاوہ اہل شوری میں سے کوئی ایک بھی زندہ باقی نہیں تھا۔ صحیح مسلم میں ہے حضرت عامر بن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنے اونٹوں میں (موجود) تھے کہ اسی دوران ان کا بیٹا عمر آیا؛ تو جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اسے دیکھا تو فرمایا : ’’میں اس سوار کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں ۔ جب وہ اترا تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے کہنے لگا کہ: کیا آپ اونٹوں اور بکریوں میں رہنے لگے ہیں اور لوگوں کو چھوڑ دیا ہے اور وہ ملک کی خاطر جھگڑرہے ہیں ۔ تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اس کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا : خاموش ہوجا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:’’ اللہ اپنے بندے سے پیار کرتا ہے جو پرہیزگار اور غنی ہے اور ایک کونے میں چھپ کر بیٹھا ہو۔‘‘[2]
[1] اشعث بن قیس بن معدیکرب الکندی ابو محمد ؛ صحابی ہیں ؛ سن دس ہجری میں ستر ساتھیوں کے ساتھ وفد کی شکل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کندہ کے بادشاہوں میں سے تھے۔ آپ نے اسلام قبول کیا۔ جنگ یرموک میں شرکت کی۔ اور اس جنگ میں آپ کی ایک آنکھ جاتی رہی ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں زکواۃ دینے سے انکار کیا ؛ تو ان سے جنگ کی گئی ۔ جس میں آپ نے ہتھیار ڈال دیے۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو آزاد کردیا؛ اور ام فروہ سے آپ کی شادی کردی۔ آپ مدینہ میں قیام پذیر رہے۔ اور کئی جنگوں میں شرکت کی ۔ عراق کی جنگوں میں شریک ہوئے۔ اور صفین اور نہروان کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ پھر واپس کوفہ چلے گئے اور سن ۴۰ ہجری میں انتقال فرمایا۔ بخاری او رمسلم میں آپ سے نو احادیث روایت کی گئی ہیں ۔ دیکھیں : الاصابہ ۱؍ ۶۶؛ الأعلام ۱؍ ۳۳۳۔ [2] ہمارے معاصر مشہورشیعہ شاعر محمد جواد خضر نے ان تاریخی حقائق کو تسلیم کیا ہے اور اس طرح اﷲ تعالیٰ نے حق و انصاف کو اس کی زبان پر جاری کردیا، حضرت علی بن حسین بال بچوں سمیت جب کربلا سے کوفہ پہنچے اور خیانت کارشیعہ مستورات سمیت روتے دھوتے اور دامن پھاڑتے آپ کے استقبال کے لیے نکلے(جیسے شیعہ آج کل عاشوراء کے موقع پر کرتے ہیں ) تو آپ نے اہل کوفہ کو مخاطب کرکے کہا:’’ اہل کوفہ! اب تم رو رہے ہو بتلائیے تمہارے سوا ہمیں اور کس نے قتل کیا ہے؟‘‘