کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 562
درست ہے۔ پھر یہ کہ اشعث بن کا انتقال ۳۰ہجری میں ہوا۔اور ۳۱ ہجری بھی کہا گیاہے۔ اسی لیے اس کا نام اس صلح میں نہیں آتاجواتفاق والے سال حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے مابین ہوئی تھی۔یہ سن ۳۱ ہجری کا واقعہ ہے۔ اشعث بن قیس حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے سسر تھے۔ [1]اگر وہ اس موقع پر موجود ہوتے تو ان کا ذکر ضرور کیا جاتا۔اور اگر اس کی وفات حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی وفات سے بیس سے پہلے ہوچکی تھی؛ تو پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنی بیٹی کو حضرت حسن رضی اللہ عنہما کو زہر دینے کا حکم دیا ہو۔ حقیقت حال کا علم تو صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے۔ اور وہی ان کے اختلافی امور میں فیصلہ کرے گا۔اور اگر ایسی کوئی بات ہوئی ہے ؛ تو یہ پھر وہی باہمی جنگ و قتال ہے جیسے کہ پہلے گزر چکا؛ کہ مسلمانوں نے آپس میں ایک دوسرے کو تأویل کی بنا پر قتل کیا۔اور ایک دوسرے پر سب و شتم بھی کیا۔ اور کفر کے فتوے بھی لگائے۔ یہ ایک بہت بڑا باب ہے؛ جو اس بارے میں حقیقت واجب نہ جانتا ہو تو وہ گمراہ ہو جاتا ہے۔ [حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کس نے قتل کیا]: [بیسواں اعتراض]: کہتے ہیں : ’’ معاویہ کے بیٹے یزید نے حضرت حسین کو قتل کیااور ان کی عورتوں کو قیدی بنایا ۔‘‘ [جواب]: یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید نہیں کیا ‘ اور نہ ہی آپ کو قتل کرنے کا حکم دیا ؛ اس پر اہل علم کا اتفاق ہے۔ مگر اس نے ابن زیاد کو یہ خط لکھا کہ آپ کو عراق کی ولایت سے روکے۔جبکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ اہل عراق آپ کی نصرت کریں گے ؛ اور آپ کی طرف لکھے گئے وعدے پورے کریں گے۔[2] چنانچہ آپ نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجا۔ جب انھوں نے دھوکہ سے مسلم کو قتل کرکے ابن زیاد کی بیعت کرلی، تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے واپس جانے کا ارادہ کیا، مگر ابن ز یاد کی ظالم فوجوں نے آپ کو واپس جانے سے روکا۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ: مجھے یزید کے پاس جانے دیا جائے۔ یا ملکی سرحد کی راہ لینے دی جائے۔ یا اپنے شہر کو واپس جانے دیا جائے۔ مگر انھوں نے
[1] یہ شیعہ کا قول ہے، جو بلا دلیل و ثبوت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر اتہام طرازی کرتے رہتے ہیں یا وہ لوگ اس کے قائل ہیں جو شیعہ کے دام فریب میں آکر ان کے جھوٹے اقوال سے متاثر ہو جاتے ہیں ۔ [2] صحیح بخاری،کتاب الادب۔ باب ما ینھی عن التحاسد والتدابر،(حدیث:۶۰۶۴)، صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ۔ باب تحریم الظن والتجسس(حدیث:۲۵۶۳)۔