کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 560
فرماتے ہیں : ’’جب فتنہ بپا ہوا تو اصحاب رسول کی تعداد کچھ کم نہ تھی۔ جمیع صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس بات پر اجماع کر لیا تھا کہ جس خون ، مال یا عفت و عصمت کو بنا بر تاویل حلال کیا گیا ہو وہ ہدرہے (جس پر شرعی سزا نہ دی جائے) ؛ اور اسے جاہلیت کا سا معاملہ سمجھاجائے ۔‘‘ جہاں تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے لعنت کا تعلق ہے، فریقین دعا میں ایک دوسرے پر لعنت کرتے تھے؛ جیسا کہ ان کے مابین جنگ بھی بپا ہوئی۔ان کے سردار اُن پراپنی دعاؤوں میں لعنت کرتے تھے ‘ اور دوسرے گروہ کے سردار پہلے گروہ کے بڑوں پر لعنت کرتے تھے۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان میں سے ہر گروہ دوسرے کے خلاف دعاء قنوت پڑھ کر بددعا کرتاتھا ۔ کسی کے خلاف جنگ آزما ہونا اس پر لعنت بھیجنے سے بھی عظیم تر ہے۔ لعنت بھیجنے کا فعل خواہ گناہ ہو یا صحیح و غلط اجتہاد پر مبنی ہو، اﷲ کی مغفرت کا حصول بنا بر توبہ گناہوں کا ازالہ کرنے والے اعمال صالحہ اور گناہوں کا کفارہ بننے والے حوادث و آلام کی وجہ سے ممکن ہے۔پھرعجیب بات یہ ہے کہ روافض سَبِّ علی رضی اللہ عنہ کو ناپسند کرتے ہیں اور خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی تکفیر کرنے اور ان کو اور ان سے محبت رکھنے والوں کو برا بھلا کہنے سے نہیں شرماتے۔ بخلاف ازیں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے احباب و انصار حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر نہیں کرتے ، آپ کی تکفیر صرف خوارج کرتے ہیں ، جو دین اسلام سے نکل چکے ہیں ،رافضہ ان سب سے برے ہیں ۔اگر خوارج اس گالم گلوچ کا انکار کرتے تو ان کے قول میں تناقض ہوتا۔توپھر رافضی اس کا انکار کیسے کرسکتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کوگالی دینا جائز نہیں ۔نہ ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کونہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اور نہ ہی ان دونوں کے علاوہ کسی اور کو ۔ پھر جو کوئی حضرات ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو گالی دے ‘ اس کا گناہ اس سے بڑھ کر ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گالی دے ۔ اگرچہ ان صحابہ کو گالی دینے والا کسی تاویل کا بھی شکار ہو ؛تو اس کی تأویل حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گالی دینے والے کی تاویل سے بڑھ کر فاسد اور بے کار ہے۔ اگر ان صحابہ کو تاویل کی وجہ سے گالی دینے والا برانہیں ہے تو پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھی برے نہیں ہوسکتے ۔اور اگریہ حرکت مذموم ہے ‘ تو پھر شیعہ جو کہ خلفاء ثلاثہ کو گالی دیتے ہیں وہ نواصب سے بڑھ کر مذمت کے مستحق ہیں جو کہ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کوگالی دیتے ہیں ۔ خواہ جس زاویہ سے بھی اس معاملہ کو لیا جائے تو آپ دیکھیں گے کہ شیعہ سب سے زیادہ حق سے دور ہیں ۔ صحیحین میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے صحابہ کو گالی نہ دو، مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کوئی شخص احد کے پہاڑ جتنا سونا بھی خرچ کرے، تو وہ ان کے عشرعشیر کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘[1]
[1] کہ ابو ایوب انصاری جیسے مقتدر صحابہ آپ کے زیر قیادت شریک جہاد ہوئے۔ عبدالرحمن اس وقت عنفوان شباب میں تھے۔ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ عبد الرحمن نے چار عجمی کافر قید کیے اور حکم دیا کہ انھیں تیروں سے قتل کیا جائے، جب حضرت ابوایوب کو پتہ چلا تو انھوں نے اس سے منع فرمایا اور کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو باندھ کر قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ عبد الرحمن نے اس گناہ کی پاداش میں چار غلام آزاد کیے۔ (سنن ابی داؤد۔ کتاب الجہاد۔ باب فی قتل الاسیر بالنبل (حدیث: ۲۶۸۷)، و سندہ ضعیف ۔اس کی سند میں بکیر بن الاشج راوی مجہول الحال ہے۔خلافتِ عثمانی میں حضرت معاویہ نے عبد الرحمن کو ملک شام کی شمالی جانب حمص سے لے کر جزیرہ ابن عمر تک کا حاکم مقرر کیا تھا۔ آپ نے ایک بیدار مغز اور جرأت مند حاکم کی طرح اپنے فرائض منصبی ادا کیے۔ خلافت عثمانی میں جب فتنہ پردازوں نے کوفہ میں شرانگیزی کا آغاز کیا تو حضرت عثمان نے ان کو معاویہ کی خدمت میں بھیجنے کا حکم صادر فرمایا۔ حضرت معاویہ نے اپنے حلم و ادب کے ذریعہ ان کی اصلاح کرنا چاہی مگر وہ حلم و ادب کی لغت سے واقف ہی نہ تھے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت معاویہ نے ان کو عبدالرحمن بن خالد کے پاس بھیجا۔ عبد الرحمن نے ان کو متنبہ کرتے ہوئے جو کچھ کہا اس میں یہ الفاظ بھی شامل تھے: ’’اے شیطان کے آلہ کارو! میں تمھیں خوش آمدید نہیں کہنا چاہتا۔ اب شیطان تھک کر عاجز آگیا ہے، مگر تمہاری پھرتی و چالاکی میں کمی نہیں آئی۔ اﷲ عبدالرحمن کو ناکارہ کردے، اگر ادب سکھا کر وہ تمھیں فرماں بردار نہ بنائے۔ اے ان لوگوں کے گروہ جن کے متعلق مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ عرب ہیں یا عجم۔ تمھیں واضح ہو کہ میں اس خالد بن ولید کا بیٹا ہوں جو بڑی مشکلات سے دوچار ہوئے۔ جنھوں نے فتنہ ارتداد کی آگ کو فرو کیا۔ اے صعصعہ بن ذلّ اگر مجھے پتہ چلا کہ میرے رفقاء میں سے کسی نے تیری ناک توڑی اور پھر تجھے دودھ پلایا تو میں تجھے عبرتناک سزادوں گا۔‘‘ (تاریخ طبری:۵؍۸۷)عبد الرحمن بن خالد کہا کرتے تھے:’’ جس کی خیر سے اصلاح ممکن نہ ہو اسے شر کے ذریعے ٹھیک کر سکتے ہیں ۔‘‘یہ سن کر سب شریرعبد الرحمن سے کہنے لگے:’’ہم بارگاہ ایزدی میں توبہ کرتے ہیں ، ہمیں معاف فرمائیے اﷲ تعالیٰ آپ کو معاف کرے۔‘‘ (طبری:۵؍۸۷۔۸۸) مگر ان کی یہ توبہ مخلصانہ نہ تھی۔ رہا ہو کر انھوں نے حج کرنے کے بہانے سے امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کردی۔ عبد الرحمن بن خالد جنگ صفین میں حضرت معاویہ کے ہم راہ تھے، جیسا کہ شٰخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔  ابو اعور کااصلی نام عمر بن صفوان ذکوانی ہے۔ ذکوان بنی سُلیم کے ایک قبیلہ کا نام ہے۔یہ صحابی ہیں غزوۂ حنین کے بعد اسلام لائے۔محمد بن حبیب لکھتے ہیں :’’حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مختلف دیار و امصار کے امراء کو لکھا تھا کہ ہر علاقہ میں سے ایک صالح ترین شخص آپ کی خدمت میں بھیجا جائے۔ چنانچہ بصرہ، کوفہ اور شام و مصر سے چار آدمی آپ کے یہاں بھیجے گئے۔ اتفاق کی بات ہے کہ یہ چاروں قبیلہ بنی سلیم سے تعلق رکھتے تھے اور ان میں سے ایک ابو اعور سُلَمِی تھے۔ امام مصر حضرت لیث بن سعد فرماتے ہیں :’’جب ۲۳ھ میں عموریہ کی جنگ ہوئی تو اس میں مصری فوج کے امیر وہب بن عمیر جُمحی تھے اور شامی لشکر کے سپہ سالار ابو اعور سلمی تھے۔‘‘ابو زرعہ اپنی تاریخ دمشق میں لکھتے ہیں :’’۲۶ھ میں ابو اعور سلمی نے قبرص کی جنگ میں شرکت کی تھی ۔ ‘‘ جنگ صفین میں ابو اعور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے اور بہت بڑے قائد خیال کیے جاتے تھے۔ ان کی شجاعت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابو اَعور نے یہ سمجھ کر اشتر نخعی کا مقابلہ کرنے سے انکار کردیا تھا کہ وہ ان کا حریف نہیں ہو سکتا۔