کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 555
حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اپنی رعایا او ران کی سیاست پر قائم رہتے ‘ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی رعایا کی تدبیر و تنسیق و سیاست پر قائم رہتے [تو امت لڑائی کے فتنہ سے بچ جاتی؛ اور لڑائی نہ ہونے سے بڑے دو ر رس نتائج برآمد ہوتے]اور امت میں اتنا فساد اور خون خرابہ نہ ہوتا جو اس جنگ و قتال کی وجہ سے ہوا۔کیونکہ اس جنگ کی وجہ سے امت ہمیشہ تفرقہ بازی کا شکار رہی اور ایک امام پر جمع نہ ہو سکی۔بلکہ خون ریزی کا سلسلہ تا دیر جاری رہا اور بغض و عداوت کے جذبات زور پکڑ گئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا گروہ جو أقرب إلی الحق تھا کمزور ہو کر صلح کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہوا۔حالانکہ شروع میں آپ صلح کے طلبگار نہ تھے۔ ظاہر ہے کہ جس فعل کی مصلحت اس کے فساد پر غالب ہو، اس کا وجود پذیر ہونا اس کے نہ ہونے کی نسبت زیادہ خیروبرکت کا موجب ہوتا ہے۔ موضوع زیر بحث میں بھی لڑائی سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ بلکہ لڑائی نہ ہونے کے فوائد و مصالح کہیں بڑھ کر تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج کثرت تعداد اور قوت وشوکت کے لحاظ سے برتر تھی۔ اور حضرت معاویہ ان سے مصالحت وموافقت اور جنگ بندی کرنے کے لیے تیار تھے۔ جس اجتہاد سے اس قدر تباہ کن نتائج ظہور پذیر ہوں ، اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس میں بے گناہ تصور کیا جائے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنے اجتہاد میں بالاولیٰ عفو و درگزر کے مستحق ہوں گے۔ * حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے اعوان و انصار کہتے تھے:’’ لڑائی کا آغاز کرنے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ، ہم صرف اپنی جانوں اور اپنے ملک کی مدافعت کر رہے ہیں ۔انہوں نے ہم سے جنگ کا آغاز کیا تو ہم نے اس کا جواب جنگ کی صورت میں دیا۔ اور ہم نے جنگ کا آغاز نہیں کیا۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ظلم و تعدی کا ارتکاب بھی نہیں کیا۔‘‘ جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے رفقاء سے یوں کہا جاتا:’’حضرت علی رضی اللہ عنہ واجب الاطاعت امام ہیں اور ان کی بیعت آپ کے لیے ناگزیر ہے، کیونکہ بیعت نہ کرنے سے مسلمانوں میں تفرقہ بازی پیدا ہوتی ہے۔‘‘ تو وہ اس کے جواب میں کہتے تھے:’’ہمیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا واجب الاطاعت امام ہونا کسی دلیل سے معلوم نہیں ۔‘‘ خصوصاً شیعہ کے ہاں امامت نص سے ثابت ہوتی ہے۔ اور ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی کوئی نص موصول نہیں ہوئی جس کی روشنی میں آپ کی امامت اور اطاعت واجب ہوتی ہو۔‘‘ ظاہر ہے کہ اصحاب معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ عذر معقول ہے۔ اس لیے کہ شیعہ امامیہ جس نص جلی کا دعویٰ کرتے ہیں ، اگر اسے حق بھی فرض کر لیا جائے(حالانکہ وہ باطل ہے) [1] تویہ نص ابو بکر و عمر اورعثمان رضی اللہ عنہم خلفاء ثلاثہ کے عہد خلافت میں پوشیدہ رکھی گئی تھی۔ تو پھر ہم کیسے واجب کرسکتے ہیں کہ اصحاب معاویہ رضی اللہ عنہ اس سے آگاہ ہوں ۔ یہ مفروضہ اس صورت میں ہے جب نص مذکور حق ہو؛ مگر وہ حق نہیں بلکہ باطل ہے۔
[1] البخاری، ح(۳۶۴۱) [2] مسلم۳؍ ۱۵۲۵؛ کتاب الامارۃ،باب قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’ لا تزال طائفۃ من امتی....‘‘ (ح:۱۹۲۵) [3] حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے دین اسلام کے تحفظ و بقاء اور اسلامی سلطنت کی سرحدوں کی حفاظت و نگہداشت میں جس حد تک اہتمام کیا تھا، اس کی ادنیٰ مثال یہ ہے کہ جب آپ کو معلوم ہوا کہ قیصر روم ایک عظیم لشکر کے ساتھ اسلامی سلطنت پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے تو آپ نے اس کو ان الفاظ پر مشتمل ایک خط لکھا:’’ اﷲ کی قسم!اگر تو اس حرکت سے باز آکر واپس اپنے وطن نہ لوٹا تو میں اپنے چچا زاد بھائی (حضرت علی) سے صلح کر لوں گا اور ہم دونوں تجھے تیرے ملک سے نکال کر دم لیں گے اور اﷲ کی زمین کو تجھ پر تنگ کردیں گے۔‘‘ شاہ روم یہ خط پڑھ کر ڈر گیا اور اپنے ارادہ سے باز رہا۔