کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 553
ہوجاتا۔ اگر ان امور کی وجہ سے امام کو معزول کرنا یا قتل کرنا جائز ہوجاتا ہے تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کا ترک کرنا ‘ اور آپ سے انتقام لینا زیادہ مناسب ہے۔ اگرچہ ان لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر بنی امیہ کی اقرباء پروری کا الزام لگایا ہے ‘ تو اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ان کے خلاف شدت اور انصاف ترک کرنے کا الزام لگایا گیا ہے ۔ [[ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی ایسے نامناسب افعال صادر ہوئے تھے جن کی وجہ سے بعض صحابہ ان کی بیعت میں دیر سے شریک ہوئے]] مزید براں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو معزول کرنے میں بڑی عجلت سے کام لیا۔حالانکہ آپ معزول کیے جانے کے مستحق نہ تھے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے علاقہ پر ابوسفیان کو عامل بنا کر بھیجا۔جب آپ نے وفات پائی تو ابوسفیان اس وقت بھی امیر نجران تھے۔ آپ کے بہت سے امراء اموی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ مثلاً آپ نے عتاب بن اَسِید رضی اللہ عنہ کو مکہ کا حاکم مقرر کیا۔[1] اسی طرح خالد بن سعید بن عاص بن امیہ کو بنی مذحج اور صنعاء یمن کے صدقات واموال پر عامل مقرر فرمایا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک آپ اس عہدہ پر فائز رہے۔ حضرت عمرو کو تیماء؛ خیبر اور عرینہ کا عامل مقرر فرمایا ۔اور ابان بن سعید بن عاص کو اس وقت بحرین کے بحر و بر پر عامل مقرر کیاجب حضرت علاء حضرمی نے اپنے آپ کو اس معاملہ سے الگ کردیا تھا۔آپ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک اس منصب پر فائز رہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پہلے آپ کو سرایا کا امیر بھی بنایا تھا ؛ ان میں سے ہی ایک سریہ بلاد نجد کی طرف تھا۔پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو عامل مقرر کیا۔ آپ کی زندگی دین داری و سیاست رانی دونوں اعتبار سے بے داغ تھی۔ احادیث صحیحہ میں وارد ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تمہارے بہترین خلفاء وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور جو تم سے محبت کرتے ہوں ۔ تم ان کے لیے دعا کرو اور وہ تمھیں دعا دیں ۔ بدترین حکام وہ ہیں جن سے تم بغض رکھتے ہو اور جو تم سے بغض رکھتے ہوں ۔ تم ان پر لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت بھیجیں ۔‘‘ [2] صحابہ کا قول ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کا مصداق تھے؛کیونکہ رعیت آپ کو چاہتی تھی اور آپ رعیت کو چاہتے اوران کے لیے دعا کرتے تھے اور رعیت آپ کے لیے دعا کرتی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر رہے گا اور کوئی مخالف ان کو ضرر پہنچا سکے گا اور نہ رسوا کر سکے گا ۔‘‘[3]
[1] صحیح بخاری، کتاب الفتن، باب تکون فتنۃ القاعد فیھا خیر من القائم، (حدیث: ۷۰۸۱)، صحیح مسلم۔ کتاب الفتن۔ باب نزول الفتن کمواقع القطر (حدیث: ۲۸۸۶) صحیح بخاری ۔ کتاب الایمان۔ باب من الدین الفرار من الفتن(حدیث:۱۹)صحیح مسلم۔ کتاب الزہد۔ باب( ۱)، (حدیث:۲۹۶۵) سنن ابن ماجۃ۔ کتاب الفتن، باب التثبت فی الفتنۃ،(حدیث:۳۹۶۲) صحیح بخاری، کتاب الفتن، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم للحسن بن علی (ح: ۷۱۱۰) موقوفا علیہ [2] قاتلین عثمان جنگ جمل میں حضرت علی کے لشکر میں تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے رفقاء جب قاتلین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر لعنت بھیج رہے تھے تو یہ لوگ بذات خود سب کچھ سن رہے تھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ہم نوا ساتھ ساتھ آمین کہتے جاتے تھے ۔ کوفہ کے بعض قاتلین عثمان جنگ صفین تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں موجود تھے جب بھی ان کا ذکر آتا حضرت علی رضی اللہ عنہ ان پر لعنت فرماتے۔ [3] روافض قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے مداح ہیں اور ان سے اظہار خوشنودی کرتے ہیں ، حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان پر لعنت بھیجتے اور ان کے فعل پر راضی ہونے والے کو بھی ملعون قرار دیتے تھے۔ جن لوگوں پر حضرت علی رضی اللہ عنہ لعنت بھیجتے ہوں کیا وہ آپ کے شیعہ ہو سکتے ہیں ؟ دراصل یہ لوگ فتنہ پردازی میں پیش پیش ہیں ۔قاتلین عثمان کے اعتراضات اور ان کے جوابات کے لیے دیکھئے:’’ العواصم من القواصم: ۶۱تا ۱۴۱، یہ صفحات نادر تحقیقات پر مشتمل ہیں ۔