کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 552
فصل:....رافضی دعوی کا فساد
[مقاتلین علی رضی اللہ عنہ کی مذمت اور قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کی تعریف]
جب یہ معاملہ واضح ہوگیا تو اب کہا جائے گا کہ : رافضیوں کا عقیدہ سب سے برا اور بہت بڑے تناقض کا شکار ہے ۔ اس لیے کہ ان لوگوں کی بہت سخت مذمت کرتے ہیں جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے قتال کیا ۔اور شیعہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کی مدح کرتے [1]اور ان کے فعل شنیع پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں ۔ حالانکہ جن لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ [2]کو قتل کیا ‘ وہ ان لوگوں سے بڑھ کر مذمت کے مستحق اور گنہگار ہیں جن لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی۔ بیشک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایسے خلیفہ تھے جن پر تمام لوگوں کا اجماع ہوگیا تھا۔ آپ نے کسی مسلمان کو قتل نہیں کیا ۔ باغی آپ کے خلاف نبرد آزما ہوئے تاکہ آپ خلافت سے دستبردار ہوجائیں ۔آپ کا خلافت پر باقی رہنے کا عذر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اپنے اطاعت کے مطالبہ کے عذر سے بڑھ کر تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صبرکا مظاہرہ کیا یہاں تک کہ آپ انتہائی مظلومیت کی حالت میں شہید کردیے گئے ۔ مگر آپ نے اپنی جان بچانے کے لیے جنگ نہیں کی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ کی ابتداء کی۔ جب کہ وہ لوگ جنگ نہیں کرنا چاہتے تھے؛ لیکن وہ آپ کی بیعت نہیں کررہے تھے۔ اگر ان لوگوں سے جنگ کرنا جائز ہے جو کسی ایسے امیر کی بیعت نہ کرنا چاہتے ہوں جن کی بیعت آدھے مسلمان؛ یا اس سے کم یا زیادہ لوگ کر چکے ہوں ؛ تو پھر ایسے لوگوں سے جنگ کرنا زیادہ اہم ہے جو ایسے امام یا خلیفہ سے جنگ کریں اور اسے قتل کرڈالیں جس کی بیعت پر تمام مسلمانوں کا اجتماع ہوچکا ہو۔
اگر شیعہ کہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ [3]سے چند ایسے فعل سرزد ہوئے جو کہ آپ کے شایان شان نہ تھے۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایسے امور ہیں جن کی وجہ سے خلیفہ کو خلافت سے معزول کرنا یا اسے قتل کردینا جائز نہیں
[1] یہ حدیث صحیح بخاری میں ہے ؛ ۱؍ ۸۸؛ کتاب الصلاۃ ؛ باب المساجد في البیوت ؛ حضرت عتبان بن مالک سے روایت کرتے ہیں ان کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ میرے پاس صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو ایک شخص نے کہا کہ مالک بن دخشن کہاں ہے تو ہم میں سے ایک شخص نے کہا کہ وہ منافق ہے، اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں کرتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’ کیا تم نہیں جانتے کہ وہ لا ِلہ ِلا اللہ محض اللہ کی رضا جوئی کے لئے کہتا ہے، اس نے کہا ہاں ، تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص بھی اس کلمہ کو دل کے خلوص کے ساتھ کہے گا اللہ قیامت کے دن اس پر آگ کو حرام کر دے گا۔‘‘ صحیح مسلم ۱؍۴۵۵ ؛ کتاب المساجدومواضع الصلاۃ باب الرخصۃ في التخلف عن الجماعۃ بعذر ۔‘‘
[2] صحیح بخاری:جلد سوم:ح ۱۷۱۸۔ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جس کا نام عبداللہ اور لقب حمار تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسایا کرتا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو شراب پینے کے سبب کوڑے لگوائے تھے ایک دن پھر نشہ کی حالت میں لایا گیا آپ نے اس کو کوڑے مارے جانے کا حکم دیا تو اس کو کوڑے لگائے گئے، قوم میں سے ایک شخص نے کہا کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو، کسی قدر یہ [نشہ کی حالت میں ] لایا جاتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر لعنت نہ کرو، اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔‘‘
[3] سنن ابن ماجۃ ۱؍۶۵۹ ؛ کتاب الطلاق؛ باب طلاق المکرہ و الناسي ؛ صححہ الألباني رحمہ اللّٰہ ۔