کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 546
جنگ صفین کے بارے میں علمائے کرام کے کئی اقوال ہیں : ان میں سے بعض یہ کہتے ہیں کہ : ’’ ان دونوں فریقوں میں سے ہر فریق مجتہد تھا‘اور ان کا اجتہاد اپنی جگہ پر درست تھا۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ دونوں حضرات مجتہد تھے۔یہ اکثر اشاعرہ ‘ کرامیہ اور دیگر فقہاء کا قول ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اصحاب میں سے ایک گروہ اور امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے۔ کرامیہ کہتے ہیں : ان میں ہر ایک حق پر تھا؛ اور بوقت ضرورت دو امیر مقرر کرنے جائز ہیں ۔ ان میں سے ایک گروہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ : ان دو میں سے ایک گروہ حق پر تھا ۔ مگر وہ اس گروہ کو متعین نہیں کرتے۔ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ : ’’ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ مجتہد تھے ‘ مگر غلطی پر تھے۔ مذاہب اربعہ کے فقہاء اور اہل کلام میں سے بعض گروہوں کا یہی مسلک ہے ۔ یہ تینوں اقوال ابو عبداللہ بن حامد نے امام احمد کے ساتھیوں سے نقل کیے ہیں ۔ ان میں سے بعض یہ بھی کہتے ہیں : ’’ حق تو یہ تھا کہ ان کے مابین جنگ نہ ہوتی ۔ جنگ کا ترک کرنا دونوں گروہوں کے حق میں بہتر تھا۔ اس لیے کہ جنگ میں کوئی بھی اصابت نہیں ہوتی۔ مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہ نسبت حق کے زیادہ قریب تھے۔ یہ قتال قتال ِ فتنہ تھا‘ نہ ہی واجب تھا اور نہ ہی مستحب ۔ اس قتال کا ترک کرنا ہی دونوں گروہوں کے حق میں بہتر تھا۔ حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حق کے زیادہ قریب تر تھے۔یہ قول امام احمد اور اکثر اہل حدیث اوراکثر ائمہ فقہاء کا ہے۔اور یہی قول بہت سارے اکابر صحابہ کرام اور تابعین کا ہے۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بھی یہی کہتے ہیں ۔ آپ لوگوں کو اس جنگ میں اسلحہ بیچنے سے منع کیا کرتے تھے۔ آپ کہتے تھے کہ : یہ فتنہ میں اسلحہ کی فروخت ہے ۔ یہی قول حضرت اسامہ بن زید ‘ محمد بن مسلمہ ‘ ابن عمر ‘ سعد بن ابی وقاص ؛ اور باقی زندہ رہنے والے اکثر سابقین اولین اور مہاجرین وانصار رضی اللہ عنہم کا قول ہے۔ اس لیے اہل سنت و الجماعت کا مذہب اور عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بپا ہونے والی لڑائیوں کے بیان کرنے سے اپنی زبانوں کو روک کر رکھا جائے۔ اس لیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل ثابت شدہ ہیں اور ان سے دوستی اور محبت رکھنا واجب ہے ۔ ان کے مابین جوکچھ ہوا اس کا ایسا عذر بھی ہوسکتا ہے جو انسان پر مخفی رہا ہو۔اور ان میں ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی اس لغزش سے توبہ کرلی تھی۔اور ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن کے گناہ معاف کردیے گئے ہیں ۔ پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین ہونے والے جھگڑوں میں پڑنے سے انسان کے دل میں بغض و مذمت پیدا ہوتی ہے۔ اور اس معاملہ میں وہ صرف غلطی پرہی نہیں بلکہ اس معاملہ میں عاصی و گنہگار بھی ہوتا ہے۔ اس طرح یہ اپنے آپ کو بھی اور اپنے ان ساتھیوں کو بھی نقصان پہنچاتا ہے جن کے ساتھ ایسے معاملات میں گفتگو کرتا ہے۔ جیسا کہ ان اکثر لوگوں کیساتھ یہ معاملہ پیش آچکا ہے جو اس موضوع کو اپنے لیے مشق سخن بنایا کرتے تھے۔ اس لیے کہ ان لوگوں نے ایسی باتیں کی تھیں جو اللہ اور اس کے رسول کے ہاں نا پسندیدہ تھیں ۔ اس کی وجہ یا توان لوگوں کی مذمت کرنا ہے جو مذمت کے مستحق نہیں ہیں ۔ یا پھر ایسے امور کی مدح کرنے کی وجہ سے جو مدح کے قابل نہیں ۔
[1] حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی سیرت و سوانح میں متوسط راستہ وہ ہے جو قبل ازیں آپ کے حالات میں روشنی ڈالتے ہوئے ہم نے اختیار کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قباء کے مقام پر جو خواب دیکھا اور جس کا ذکر قرآن کریم کے بعد صحیح ترین کتاب یعنی بخاری ومسلم میں موجود ہے وہ بھی اسی ضمن میں شامل ہے۔ اس خواب کی تعبیر عملی طور پر اس وقت ظہور پذیر ہوئی جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کی خالہ فتح قبرص کے موقع پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بحری بیڑے میں شامل ہو کر جہاد کے لیے گئیں اور ان کی موت اسی جگہ واقع ہوئی۔ ( بخاری، کتاب الاستئذان۔ باب من زار قوما فقال عندھم(ح :۶۲۸۲) مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الغزو فی البحر(ح:۱۹۱۲)۔ یہ امیر معاویہ جیسے ولی، صالح اور مجاہد فی سبیل اﷲ کا اوّلین وصف ہے۔ آخری تعریف وہ ہے جو امام احمد نے اپنی تصنیف ’’ کتاب الزہد‘‘ میں اس امام مظلوم (حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ) کے زہد و تقویٰ کے واقعات بیان کرتے ہوئے فرمائی۔ ہم نے اس ضمن میں مشہور و معتبر مصادر ومآخذکے حوالہ سے جو کچھ لکھا ہے اس سے صاف عیاں ہے کہ خلفاء راشدین کے بعد مسلم سلاطین و خلفاء میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا کوئی ہم سر پیدا نہیں ہوا۔ بنا بریں ان کی شان میں ایسی موضوعات گھڑنے کی قطعاً ضرورت نہیں جن کی جانب محدث شہیر ابن الجوزی نے اشارہ کیا ہے۔ اسی طرح متعصب روافض کی من گھڑت روایات سے بھی ان کی شان میں کچھ کمی واقع نہیں ہوتی۔ مثلاً زیر تبصرہ حدیث جس کو روافض نے حضرت عبداﷲ بن عمر کی طرف منسوب کیا ہے اور جس کو دیکھ کر باانصاف شیعہ بھی مارے شرم کے پانی پانی ہوئے جاتے ہیں ۔