کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 544
و عمر رضی اللہ عنہما ان سے افضل تھے۔‘‘[1] [پھر دوبارہ آپ نے فرمایا:
’’میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی رئیس ایسابردبار نہیں دیکھا۔‘‘
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :برد بار سردار معاویہ ۔’’ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بڑے کریم و حلیم تھے۔‘‘
* باقی رہا شیعہ کا یہ کہنا کہ :[[نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ خطبہ دینے کے لیے اٹھے؛ اسی دوران معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے یزید کا ہاتھ تھام کر چلدیے]]۔
* تواس کا جواب یہ ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبات مختلف قسم کے ہوا کرتے تھے۔ آپ جمعہ، عیدین اور حج کے موقع پر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے والد ابوسفیان رضی اللہ عنہ دیگر مسلمانوں کی طرح بالالتزام آپ کے خطبات میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا معاویہ رضی اللہ عنہ ہر خطبہ سے اٹھ جایا کرتے تھے اور سنتے نہ تھے ؟ ظاہر ہے کہ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سب صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے موجب اہانت ہے کہ ہمیشہ دو شخص آپ کے خطبہ کے دوران اٹھ کر چلے جایا کریں [اور باقی صحابہ خاموش یہ تماشا دیکھتے رہیں ]۔ان دونوں کو جاتے رہنے دیں یہ نہ ہی کسی خطبہ میں حاضر ہوں او رنہ ہی جمعہ میں ۔ نیز یہ کہ اگر وہ دونوں ہر خطبہ میں حاضر ہوا کرتے تھے تو اس سے اٹھ کر چلے جانے کا کیا معنی؟
اس پر مزید یہ کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تکلیف دینے والوں کے مقابلہ میں بڑے حلیم وبردبار اور صابر تھے، جیساکہ آپ کی سیرت اور حالات زندگی میں یہ بات معروف ہے۔ مقام حیرت ہے کہ وہ اس صبر و حلم کے باوصف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نفرت کرتے تھے؟ حالانکہ آپ دین و دنیا میں سب لوگوں کے سردار تھے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہر بات میں آپ کے محتاج بھی تھے ۔اور یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ آپ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو سننا بھی گوارا نہ کرتے تھے۔حالانکہ جب تاج و تخت سے بہرہ ور ہوئے تو لوگ آپ کے روبرو ان کو برا بھلا کہتے اور وہ خاموشی سے سنا کر تے تھے اور پھر حیرت بالائے حیرت اس بات پر ہے کہ ایسے شخص کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاتب وحی بھی مقرر فرماتے ہیں جو آپ کی بات ہی نہ سنتا ہو؟ ۔
[سولہواں اعتراض]: شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ معاویہ نے اپنے بیٹے زید یایزید کا ہاتھ پکڑا اور باہر چل دیا۔‘‘