کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 543
پڑتا ، کیونکہ انہوں نے پھر اسلام قبول کرلیا تھا ‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿کَیْفَ یَہْدِی اللّٰہُ قَوْمًا کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِہِمْ وَ شَہْدِوْٓا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّ جَآئَ ہُمُ الْبَیِّنٰتُ وَ اللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَo اُولٰٓئِکَ جَزَآؤُہُمْ اَنَّ عَلَیْہِمْ لَعْنَۃَ اللّٰہِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَo خٰلِدِیْنَ فِیْہَا لَا یُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ وَ لَا ہُمْ یُنْظَرُوْنَ oاِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ وَ اَصْلَحُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ [آل عمران۸۶۔۸۹] ’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جنھوں نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا اور (اس کے بعد کہ) انھوں نے شہادت دی کہ یقیناً یہ رسول سچا ہے اور ان کے پاس واضح دلیلیں آچکیں اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ یہ لوگ! ان کی جزاء یہ ہے کہ بے شک ان پر اللہ کی اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ ہمیشہ اس میں رہنے والے ہیں ، نہ ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ وہ مہلت دیے جائیں گے۔مگر جن لوگوں نے اس کے بعد توبہ کی اور اصلاح کر لی تو یقیناً اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔‘‘ [پندرھواں اعتراض]:شیعہ مصنف کی ذکر کردہ حدیث یعنی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ والی روایت کہ : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے سنا کہ فرما رہے تھے: ابھی ایک شخص نمودار ہو گا اس کی موت تارک سنت ہونے کی حالت میں ہو گی۔‘‘ اتنے میں معاویہ رضی اللہ عنہ نمودار ہوئے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ خطبہ دینے کے لیے اٹھے؛ اسی دوران معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے یزید کا ہاتھ تھام کر باہر چل دیے تو آپ نے فرمایا: اﷲ قیادت کرنے والے اور جس کی قیادت کی گئی ہے۔ دونوں پر لعنت کرے۔‘‘یعنی جس دین امت اس گستاخ معاویہ کے ساتھ ہوگی۔‘‘ [انتہی کلام الرافضی] جواب:اس سلسلہ میں کئی جوابات ہیں : [پہلا جواب]:اس حدیث کی صحت ثابت کیجیے۔ اس لیے کہ اثبات صحت سے پہلے کوئی حدیث قابل احتجاج نہیں ہو سکتی ۔ یہ بات ہم بطور مناظرہ کہتے ہیں ‘ ورنہ ہم قطعی طور پر جانتے ہیں کہ یہ اپنی طرف سے گھڑی ہوئی روایت ہے ۔ دوسرا جواب:یہ روایت باتفاق محدثین موضوع ہے اور کسی قابل اعتماد کتاب میں اس کا ذکر نہیں ۔ علاوہ ازیں یہ حدیث بلاسند ہے اور اس سے احتجاج کرنے والے شیعہ مصنف نے بھی اس کی کوئی معروف سند بھی بیان نہیں کی۔ شیعہ مصنف کی جہالت کا بین ثبوت ہے کہ اس حدیث کا راوی عبد اﷲ بن عمر کو ٹھہرایا ہے۔بھلا حضرت عبد اﷲ ایسی حدیث کے راوی کیوں کر ہو سکتے ہیں جس میں صحابہ کے معائب و مثالب بیان کیے گئے ہیں [آپ صحابہ کرام کے متعلق لب کشائی کرنے والوں سے سب سے دور رہتے تھے] جب کہ آپ نے بہت سی وہ احادیث نقل کی ہیں جن میں صحابہ کے مناقب بیان کیے گئے ہیں ۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی مدح و ستائش میں معروف ہے ۔ آپ فرماتے ہیں : ’’ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی رئیس ایسا بردبار نہیں دیکھا۔ ان سے دریافت کیا گیا، کیا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی آپ سے بڑھ کر نہ تھے۔؟ حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ نے جواباً فرمایا: ’’ابوبکر