کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 542
اس موقع پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے اور یہ عرض گزاری کررہے تھے کہ : اے اللہ کے نبی ! یہ اللہ کا دشمن ابو سفیان ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے بغیر عہد و پیمان کے اسے آپ کے قبضہ میں دیدیا ہے ؛ آپ اس کی گردن مار دیجیے ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی باتوں کا جواب دیا۔ پس ابو سفیان نے اسلام قبول کرلیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو امن دیدیا ‘اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان فرمایا: ’’ جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو اسے امن دیا جائے اور جو مسجد میں داخل ہو وہ بھی امن کا مستحق ہے اور جو ہتھیار ڈال دے وہ بھی مامون ہے۔‘‘[یہ حدیث ابھی گزر چکی ہے] حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا خون کیسے رائیگاں قرار دیا جاسکتاتھا ‘ جب کہ آپ اس وقت کم عمر تھے ‘ اور آپ کا کوئی خاص گناہ بھی نہیں تھا۔ اور نہ ہی آپ کے متعلق یہ معلوم ہوسکا ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لوگوں کو ابھارا کرتے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے بڑے گروہوں کے سرداروں کو امان دیدی تھی ؛ توپھر کیا سیرت کے باب میں لوگوں میں سب سے جاہل انسان کے علاوہ کوئی شخص ایسا گمان بھی رکھ سکتا ہے ؟ جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے ‘ اس پر اہل علم کا اتفاق ہے ‘ اور اس مسئلہ پر لکھنے والے مؤرخین نے اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں ۔ہم نے اس موضوع پر اپنی کتاب ’’ الصارم المسلول علی شاتم الرسول ‘‘ میں اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے۔ اور ان لوگوں کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے جن کا خون فتح مکہ کے موقع پر رائیگاں قراردیا گیا تھا۔ ہم نے وہاں پر ایک ایک کرکے سب کے نام لیے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان لوگوں میں سے عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح بھی تھے ‘ مگرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ انہیں لیکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر خدمت ہوئے ۔انہوں نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا ‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خون کو محفوظ قرار دیدیا۔ [تیرھواں اعتراض] : شیعہ مصنف کہتا ہے: ’’ اہل سنت صرف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتب وحی سمجھتے ہیں ۔‘‘ [جواب] : یہ اہل سنت والجماعت پر محض ایک الزام ہے ۔ اہل سنت میں ایک انسان بھی ایسا نہیں ہے جو یہ کہتا ہو۔ بلکہ ہم کہتے ہیں : ’’ آپ جملہ کاتبین وحی میں سے ایک تھے۔ جب کہ عبد اللہ بن سعدبن ابی رضی اللہ عنہ سرح مرتد ہوگئے تھے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام تراشی کی ؛ مگر پھر دوبارہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔‘‘ [چودھواں اعتراض]:شیعہ مصنف نے کہا ہے کہ یہ آیت:﴿ وَ لٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا﴾ [النحل ۱۰۶]’’ لیکن جوکوئی کفر کے لیے سینہ کھول دے ....‘‘ یہ عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح کے بارے میں نازل ہوئی ۔ [جواب]: یہ دعوی بالکل باطل ہے ۔ یہ آیت مکہ مکرمہ میں اس وقت نازل ہوئی جب حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو کفریہ کلمات کہنے پر مجبور کیا گیا ۔‘‘ جب کہ ابن سرح کے ارتداد کا واقعہ ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں پیش آیا ۔ اگر فرض محال یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ یہ آیت ابن سرح کے بارے میں ہی نازل ہوئی تھی ؛ تو پھر بھی کوئی فرق نہیں
[1] حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ میں نے مروہ پہاڑی پر تیر کے پھالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کاٹے۔‘‘ صحیح بخاری، کتاب الحج ۔ باب الحلق والتقصیر عند الاحلال (حدیث:۱۷۳۰)، صحیح مسلم، کتاب الحج ۔ باب جواز تقصیر المعتمر(حدیث:۱۲۴۶)۔یہ واقعہ یاتو عمرہ قضا سن سات ہجری کا ہوسکتا ہے ‘ یا فتح مکہ اور غزوہ حنین کے بعد عمرہ جعرانہ کا۔ اس لیے کہ سن دس ہجری میں آپ نے عمرہ کرکے بال نہیں کٹوائے تھے۔ آپ حج قران کررہے تھے ‘اورقربانی تک احرام میں ہی رہے تھے۔ حافظ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں معاویہ بن ابی سفیان کے حالات زندگی میں تصریحاً لکھا ہے کہ حضرت معاویہ صلح حدیبیہ اور عمرۃ القضا کے درمیان اسلام قبول کر چکے تھے۔ البتہ قریش کے ڈر سے اس کا اظہار نہیں کرتے تھے۔‘‘واقعہ یہ ہے کہ دین اسلام قریش کے ذہین نوجوانوں کی رگ و پے میں سرایت کر گیا تھا، صرف اتنا فرق ہے کہ جو لوگ ہجرت مکہ کی قدرت سے بہرہ ور تھے وہ مدینہ کا رخ کرتے اور مسلمانوں میں جا ملتے تھے، حضرت خالد بن ولید و عمرو بن العاص اور کعبہ کے کنجی بردار عثمان بن طلحہ عبدری رضی اللہ عنہم نے یونہی کیا تھا۔ جو نوجوان مکہ سے ہجرت نہیں کر سکتے تھے وہ مکہ میں اقامت گزیں رہ کر دعوت اسلام کی کامیابی کے منتظر رہتے تھے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ہم نوا انہی لوگوں میں شامل تھے۔